1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران کے خلاف محدود حملہ بھی خطرناک کھیل ہو گا، تبصرہ

شاہ زیب جیلانی
21 جون 2019

امریکا اور اس کے اتحادی اگر ایران کو سبق سکھانے کے لیے محدود فضائی یا سمندری حملوں کا سوچ رے ہیں تو یہ ایک خطرناک کھیل ہو گا، جس کا جواب ایران خطے میں کہیں بھی دے سکتا ہے۔ شاہ زیب جیلانی کا تبصرہ

https://p.dw.com/p/3KoYu
USA Spannungen mit dem Iran | Trump, Pompeo und Bolton
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ngan

ایران کے پاسدارن انقلاب کی طرف سے امریکی ڈرون مار گرانے سے خلیج فارس میں مسلح تصادم کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ حسین سلامی کے مطابق ایران کسی کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا لیکن کسی بھی بیرونی جارحیت کا بھرپور جواب دے گا۔

امریکا بھی کہتا ہے کہ وہ جنگ نہیں چاہتا۔ لیکن ایران کی طرف سے امریکا کا ڈرون گرایا جانا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سُبکی ہے۔ ان کے پاس اب بھی دو راستے ہیں: وہ ایران کے خلاف اپنی یکطرفہ حکمت عملی پر نظر ثانی کریں یا پھر صورتحال کو جنگی جنون کی طرف جانے دیں۔

صدر ٹرمپ دوسری مدت صدارت کے لیے انتخابی مہم کا آغاز کر چکے ہیں۔ ان کا ردعمل اب اسی تناظر میں دیکھا جائے گا۔ اب تک وہ نئی فوجی جنگیں شروع کرنے کی بجائے خود کو تجارتی لڑائیوں تک ہی محدود رکھتے آئے ہیں۔ لیکن ایران کے معاملے میں ان کی جارحانہ پالیسی صدر منتخب ہونے سے پہلی کی ہے۔ اس پالیسی کی باگ ڈور اب قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کے ہاتھ میں ہے۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں وہ کٹر ایران مخالف شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایران میں اسلامی انقلاب کی امریکا مخالف حکومت کا تختہ الٹنا ان کی زندگی کی دیرینہ خواہش رہی ہے۔

Shahzeb Jillani DW Mitarbeiter Urdu Redaktion
شاہ زیب جیلانیتصویر: DW

اس خواہش کی شدت امریکا سے باہر مشرق وسطیٰ میں شاید کہیں زیادہ ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل دونوں ایران کو اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتے ہیں۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو خطے میں صدر ٹرمپ کے بڑے اتحادی ہیں۔ اربوں ڈالر کے فوجی ساز و سامان کی خرید و فروخت کی بات ہو یا پھر تیل کا کھیل، یہاں تینوں کے مفادات مل جاتے ہیں۔ تینوں ملک ایران کے ایٹمی پروگرام کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں اوران کہ کوشش ہے کہ اسے اقتصادی طور پر کمزور کر کے وہاں اندر سے تبدیلی لائی جائے۔ تینوں رہنما ایران کے ساتھ مسائل کے حل میں سفارتی کوششوں میں کوئی خاص یقین نہیں  رکھتے اور طاقت کے زور پر ایران کا رویہ بدلنا چاہتے ہیں۔    

لیکن امریکا کو ایران کےگرد اقتصادی اور فوجی گھیرا تنگ کر کے اسے زبردستی قابو کرنے کی کوششیں بہت مہنگی پڑ سکتی ہیں۔ آبنائے ہرمز میں کشیدگی اور کوئی ممکنہ مسلح تصادم، تیل کی قیمتوں کو مزید متاثر کرسکتا ہے، جس کے اثرات دور تک جائیں گے۔

امریکا اور اس کے اتحادی اگر ایران کو سبق سکھانے کے لیے محدود فضائی یا سمندری حملوں کا سوچ رے ہیں تو یہ ایک خطرناک کھیل ہو گا، جس کا جواب ایران خطے میں کہیں بھی دے سکتا ہے۔

عراق اور شام میں ایران کے پاس مسلح تنظیموں کا نیٹ ورک ہے، جو وہاں برسوں سے سرگرم ہے اور اس کے ذریعے امریکی مفادات کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ جنوبی لبنان میں حزب اللہ تنظیم اسرائیل کی ناک میں دم کرنے کی سکت رکھتی ہے۔ اور پھر یمن میں جاری خون ریزی ہے، جہاں حوثی باغیوں کے سرحد پار سعودی عرب میں حملے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اگر حوثیوں کو واقعی ایران کی عسکری پشت پناہی حاصل ہے تواس جنگ میں مزید تیزی آ سکتی ہے۔  

یوں دیکھا جائے تو ایران کوئی ایسا ویسا ملک نہیں۔ یہ وہ ملک ہے، جو اسی کی دہائی میں سالہا سال تک عراق میں صدام حسین سے لڑتا رہا اور دہائیوں سے امریکی محالفت کا مقابلہ کرتا آیا ہے۔

لیکن صدر ٹرمپ کی طرف سے عائد کی گئی پابندیوں کے بعد ایران معاشی طور پر بہت مشکل میں ہے۔ امریکا کا اس کے اتحادیوں پر دباؤ ہے کہ وہ بھی ایران کے ساتھ لین دین نہ کریں، جس پر جرمنی سمیت یورپ میں کچھ ملک ناخوش بھی ہیں لیکن کھل کر صدر ٹرمپ کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتے۔

ایسا نہیں کہ ایران کی مذہبی اسٹیبلشمنٹ سے وہاں کے عوام اور پڑوسی ملکوں کو جو شکایات ہیں، وہ بےجا ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایران میں انسانی حقوق کی پامالیاں ہوتی آئی ہیں، ناقدین جیلوں میں ڈال دیے جاتے ہیں، اظہار آزادی پر قدغنیں ہیں اور کرپشن بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن ایران کے لوگ اپنی حکومت سے کتنے بھی نالاں کیوں نہ ہوں، جب بھی  امریکا، سعودی عرب اور اسرائیل کے کسی جارحانہ منصوبے کی بات ہوگی، قوم اکھٹی ہو جائے گی۔ ایسے میں ایران میں اعتدال پسند اور اصلاح پسند حلقے کمزور ہوں گے جبکہ سخت گیر موقف والے علما اور عسکری حلقے مزید حاوی ہوتے جائیں گے۔