1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافغانستان

’ایران کھڑا ہو گیا، اب ہماری باری ہے‘

29 ستمبر 2022

مھسا امینی کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمعرات کو چند افغان خواتین بھی سڑکوں پر نکل آئیں۔ طالبان نے ریلی میں شریک خواتین کو ہراساں کیا اور انہیں منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی۔

https://p.dw.com/p/4HXdo
Afghanistan Protest gegen neue Bekleidungsregeln der Taliban | Afghanistan's Powerful Women Movement,
تصویر: Wakil Kohsar/AFP

ایران میں ایک نوجوان لڑکی کی زیر حراست ہلاکت کے بعد شروع ہونے والا احتجاج کا سلسلہ افغانستان تک پہنچ گیا ہے۔ جمعرات کو افغان دارالحکومت کابل میں افغان خواتین نے مھسا امینی کی حمایت میں مظاہرا کیا۔ طالبان فورسز نے خواتین کی اس ریلی کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی۔

افغانستان: اقوام متحدہ نے خواتین ملازمین کو 'ہراساں کرنے' کے خلاف طالبان کو متنبہ کیا

افغانستان: طالبان اقتدار کا ہنگامہ خیز ایک برس

کابل میں خواتین کا احتجاج، طالبان کی طرف سے بذور قوت منتشر

طالبان حکومت میں عورتوں کے ساتھ مار پیٹ اور زیادتی کا سلسلہ جاری، رپورٹ

افغانستان اور ایران دونوں ملکوں میں ہی سخت گیر اسلامی نظریات کی حامل حکومتیں ہیں۔ ان ملکوں میں خواتین کا لباس ایک اہم معاملہ ہے اور دونوں ہی ملکوں میں حکومت قدامت پسند لباس زیب تن کرنے پر زور دیتی ہے۔ دونوں ملکوں میں صاحب اقتدار قوتوں نے اسلام کی اپنی تشریح کے مطابق لباس کا کوڈ متعارف کرا رکھا ہے، جس پر جبراً عمل در آمد کرایا جاتا ہے۔

ایرانی کرد لڑکی مھسا امینی کو چند روز قبل حجاب نہ پہننے پر حراست میں لیا گیا۔ جیل حکام کا دعوی ہے کہ امینی دل کا دورہ پڑنے کا وجہ سے ہلاک ہوئیں جبکہ ان کی اہل خانہ اور ایرانی سول سوسائٹی کا کہنا کہ امینی اخلاقی پولیس کے تشدد کی وجہ سے لقمہ اجل بنیں۔ ایرانی صدر نے اس کیس کی تحقیقات کا حکم دے رکھا ہے۔ امینی کا ہلاکت کے بعد نہ صرف ایران بلکہ دنیا بھر میں خواتین کی جانب سے احتجاج کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ افغانستان میں طالبان کی عملداری کے بعد سے انہوں نے بھی اپنے ہاں خواتین کو کئی بنیادی حقوق سے محروم کر دیا ہے۔

کابل میں ایرانی سفارت خانے کے سامنے تقریباً 25 خواتین کے ایک گروپ نے جمعرات کو احتجاج کیا۔ یہ خواتین 'عورت، زندگی اور آزادی‘ کا نعرہ لگا رہی تھیں۔ سر پر اسکارف پہنے ہوئے ان خواتین نے بینرز اٹھا رکھے تھے، جن پر یہ پیغامات درج تھے، ''ایران اٹھ گیا، اب ہماری باری ہے! کابل سے ایران تک، آمریت کو نہیں کہو! ہمیں ان خوف ناک حکومتوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

مظاہرے میں شامل ایک خاتون نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ افغان عوام بھی طالبان سے تنگ آ چکے ہیں، ''ہمیں یقین ہے کہ ایک دن ہمارے لوگ بھی اسی طرح اٹھیں گے، جیسے ایرانی عوام اٹھے ہیں۔‘‘

طالبان کے اقتدار کا ایک سال، بچیوں پر کیسا بیتا؟

طالبان فورسز نے آج عورتوں سے ان کے بینرز چھین لیے اور وہیں پھاڑ دیے۔ انہوں نے کچھ صحافیوں کو ریلی کی ویڈیوز ڈیلیٹ کرنے کا بھی حکم دیا۔ ریلی کی ایک منتظم نے نام ظاہر نہ کرتے ہوئے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ یہ ریلی ''ایران کے عوام اور افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں متاثر ہونے والی خواتین کے ساتھ ہماری حمایت اور یکجہتی کے اظہار کے لیے نکالی گئی‘‘۔

رواں سال کے آغاز میں کئی کارکنوں کی حراست کے بعد افغانستان میں خواتین کے مظاہرے کم ہو چکے ہیں۔ ایران کی طرح اس ملک میں بھی خواتین کو اپنے حقوق کے لیے احتجاج میں حصہ لینے پر گرفتاری، تشدد اور بدنامی کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ طالبان نے اسلامی شریعت کی تشریح کی بنیاد پر خواتین کی زندگیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی پابندیاں نافذ کر رکھی ہیں، جن میں ڈریس کوڈ، مردوں سے علیحدگی اور مرد سرپرست کے ساتھ سفر کرنا شامل ہیں۔

 طالبان نے لڑکیوں کو سیکنڈری اسکولوں میں واپس جانے سے روک دیا تھا جبکہ خواتین کو بہت سی سرکاری ملازمتوں سے بھی برطرف کر دیا گیا ہے۔

طالبان کے اقتدار میں ایک نوجوان خاتون کی زندگی

ع س / ا ا (اے ایف پی)