1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران پر امریکی اور روسی دباؤ

13 اکتوبر 2009

امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے واضح کیا ہے کہ ایران پر پابندیاں لگانے یا شمالی کوریا سے پابندیاں اٹھانے کا وقت ابھی نہیں آیا۔

https://p.dw.com/p/K5OE
تصویر: AP

عہدہ سنبھالنے کے بعد روس کے اپنے پہلے دورے میں ہیلری کا کہنا تھا کہ روسی حکام نے انہیں ایران کوجوہری ہتھیار بنانے سے روکنے میں تعمیری کردار ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے اس دورے کا مقصد ایران اور شمالی کوریا کے معاملات پر روس کی حمایت حاصل کرنا بتایاجارہا ہے۔ ایران پر پابندیوں سے متعلق ہیلری کلنٹن نے البتہ حالیہ دورے میں کہا کہ فی الحال اتنے سخت اقدام اٹھانے کا وقت نہیں آیا۔

Iran Atom Präsident Mahmud Ahmadinedschad
ایران کی جانب سے ہر موقع پر ان الزامات کی تردید یہ کہہ کرکی جاتی ہے کہ انکا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لئے ہے۔تصویر: AP

ان کے الفاظ تھے

''ہم مانتے ہیں کہ پر امن جوہری توانائی ایران کا حق ہے لیکن جوہری ہتھیار بنانا اس کا حق نہیں ایران کو چاہیے کہ وہ اپنے جوہری پروگرام سے متعلق عالمی برادری کو مکمل طورپر آگاہ کرے تاکہ کوئی شک نہ رہے''۔

ایران کے معاملے سے متعلق روسی صدر میدویدیف کہہ چکے ہیں کہ اگر تہران حکومت عالمی برادری کی خواہش کے برخلاف جوہری پروگرام جاری رکھتا ہے تو اس پر پابندیاں لگا دینی چاہیے۔ واضح رہے کہ ماضی میں روس، ایران کے خلاف سخت قسم کی پابندیوں کی مخالفت کرتا آرہا تھا تاہم میدویدیف کےاس بیان کو روس کی پالیسی میں تبدیلی کے طورپر دیکھا جارہا ہے۔

اپنے روسی ہم منصب سرگئی لافروف کے ہمراہ ماسکو میں مشترکہ پریس کانفرنس کے موقع پر امریکی وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ وہ اس سلسلے میں روس حکام کے تعاون سے انتہائی خوش ہیں''ہم روس کے ساتھ تعلقات کی مزید بہتری میں دلچسپی رکھتے ہیں جس میں کسی خطرے کے مشترکہ تجزئیے کا نظام، معلومات کے تبادلے کامشترکہ مرکز قائم کرنا شامل ہیں اس کا مقصد مشترکہ خطرات کے خلاف دفاعی میزائل نظام کو ایک شریک نظام بنانا ہے

Iran Russland Atomanlage in Bushehr
روس کے تعاون سے ایران کے جنوبی شہر بشیر میں ملک کے پہلے جوہری بجلی گھر کی تعمیرکا کام جاری ہےتصویر: AP

ماسکومیں امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات کے بعد انکے روسی ہم منصب سرگئی لافروف نے بھی تسلیم کیا کہ واقعی میں یہ وقت ایران کے خلاف سخت اقدامات کا نہیں ہے۔

روس عالمی طاقتوں میں وہ واحد ملک ہے جس کے تہران حکومت کے ساتھ تجارتی اور دفاعی نوعیت کے دیرینہ تعلقات قائم ہیں۔ روس کے تعاون سے ایران کے جنوبی شہر بشیر میں ملک کے پہلے جوہری بجلی گھر کی تعمیرکا کام جاری ہے تاہم ماسکو حکومت نے ایران کو S-300 نامی فضائی دفاعی نظام کے منتقلی پر عملدرآمد تاحال نہیں کیا ہے جو ایران کی فضائی حدود کو ممکنہ فضائی حملے سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

دفاعی امور کے ماہرین کے بقول اپنے حالیہ دورے میں امریکی وزیرخارجہ ماسکوحکومت سے یہ جاننے کی کوشش کریں گی کہ ایران کو جوہری پروگرام سے روکنے کے لئے روس کس طرز کا دباؤ تہران حکومت پر ڈال سکتا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس ملکر ایران کو جوہری ہتھار بنانے سے روکنے کی عالمی مہم چلارہے ہیں۔

ایران کی جانب سے البتہ ہر موقع پر ان الزامات کی تردید یہ کہہ کرکی جاتی ہے کہ انکا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لئے ہے۔ اسی مہینے جنیوا میں عالمی برادری سے مذاکرات میں ایران کی جانب سے مزید تعاون کے اشارے بھی دکھائے دئے ہیں۔

رپورٹ شادی خان

ادارت عدنان اسحٰق