1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں بے اضافہ

24 جولائی 2010

ایران میں بہت سے شہری اس بات سے پریشان ہیں کہ اشیاءخوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کئی دیگر شہری اس بات پر اپنے غصے کا اظہار کرتے ہیں کہ بیرون ملک سفر کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/OTlJ
تصویر: DW

قیمتوں میں اضافےکے باعث کئی کاروباری افراد کو اپنے کاروبار میں مندی کا سامنا ہے۔ یہ تمام عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ ایران کے متنازعے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے تہران کے خلاف لگائی جانے والی بین الاقوامی پابندیاں اب عام شہریوں کو بھی متاثر کرنے لگی ہیں۔ صدر احمدی نژاد نے تہران کے خلاف اقوام متحدہ کی ایک نئی حالیہ قرارداد کو ایک استعمال شدہ رومال قرار دیا ہے، جس سے ان کے نزدیک ’کچھ حاصل ہونے والا نہیں‘ ہے۔

اس طرح ایرانی صدر نے تہران کے خلاف لگائی جانے والی امریکہ کی نئی اور اضافی لیکن یکطرفہ پابندیوں کو بھی ایک ’قابل رحم‘ اقدام کا نام دیا تھا۔ لیکن ایرانی صدر کے اس سخت موقف کی ایران میں اگر کئی شہری حمایت کرتے ہیں، تو بہت سے دیگر باشندوں کو انہی وجوہات کی بنا پر اپنے مستقبل کے حوالے سے خدشات کا بھی سامنا ہے ۔ ایران کے خلاف نئی بین الاقوامی پابندیوں کا بنیادی ہدف توانائی اور بنیکاری جیسے شعبوں کو بنایا گیا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا خیال ہےکہ اس طرح عام شہریوں کی روزمرہ زندگی پر اٹھنے والے اخراجات میں اضافہ ہو گا اور ان کی زندگی مذید مشکل ہو جائے گی۔ اس کا ثبوت یہ چند حقائق ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں آج کل اشیاء خوراک کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، تنخواہیں مسلسل جمود کا شکار ہیں، مکانوں کے کرائے بڑھ رہے ہیں اور تاجر طبقہ پابندیوں کے اثرات سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔

Iran Land und Leute Bazar Gewürze
تصویر: DW

تہران کے ایک اسکول میں انگریزی کی تعلیم دینے والے ایک استاد نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر ایک بین الاقوامی خبر ایجنسی کو بتایا کہ جب بھی ایران سے باہر ایران کے خلاف کسی بھی طرح کی پابندیوں کی کوئی بات کی جاتی ہے تو اندون ملک اشیاء کی قیمتوں میں نئے سرے سے اضافہ ہونے لگتا ہے۔

تہران کے اس اسکول ٹیچر کے بقول ایرانی قوم ملکی ایٹمی پروگرام سے متعلقہ تنازعہ کی بہت بھاری قیمت ادا کر رہی ہے۔ اس اسکول ٹیچر کی ماہانہ تنخواہ چارسو امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے اور وہ دو بچوں کا باپ بھی ہے۔

اس پینتالیس سالہ معلم نے خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ گفتگو میں یہ سوال بھی کیا کہ آیا سرکاری حکام کو اس بات کا علم بھی ہے کہ عام شہریوں کو اتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور ان کے لئے اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلانا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

اس طرح تہران ہی کے رہنے والے ایک چھتیس سالہ ماہر تعمیرات محمد ساداتی نے بھی قیمتوں میں اضافے کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی ایران کے خلاف نئی پابندیوں کے امکان کا ذکر سننے میں آتا ہے۔ ہر شے کی قیمت زیادہ ہو جاتی ہے۔

مہتاب حشمتی نامی ایک ایرانی خاتون کے مطابق اسے خدشہ ہے کہ نئی پابندیوں کی وجہ سے ایران بین الاقوامی سطح پر مزید الگ تھلگ ہو کر رہ جائے گا۔ ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھنے والی اس خاتون کے مطابق اس کے دو بچے بیرون ملک زیر تعلیم ہیں اور اسے خدشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مستقبل میں اپنے بچوں کو ملنے کے لئے بیرون ملک تک کا سفر بھی نہ کر سکے۔

اس طرح حبیب رستمی نامی ایک تاجر نے کہا کہ اسے اشیاء خوراک درآمد کرنے والی اپنی کمپنی اس لئے بند کرنی پڑگئی کیونکہ ایرانی مالیاتی شعبے پر عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے اس کے لئے اپنا کاروبار جاری رکھنا ناممکن ہو گیا تھا۔

کئی ایرانی شہری حکومتی مؤقف کی حمایت بھی کرتے ہیں مثلا ایک اکتالیس سالہ سابقہ اسکول ٹیچر نسرین نعمتی نے ملک میں افراط زر کی تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی شرح کی شکایت تو کی مگر یہ بھی کہا کہ اسے فخر ہے کہ تہران حکومت ملکی ایٹمی پروگرام سے متعلق اپنے مؤقف پر سختی سے قائم ہے۔

رپورٹ : عصمت جبیں

ادارت : عاطف توقیر

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں