1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران آخری موقع ضائع نہ کرے: جرمنی

22 دسمبر 2020

ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں شامل ملکوں کی ایک ورچوئل میٹنگ کے بعد جرمن وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکا معاہدے میں واپس لوٹ آئے گا اور مثبت رویہ اختیار کرے گا۔

https://p.dw.com/p/3n20f
Deutschland Heiko Maas SPD Politik Porträt
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماستصویر: John Thys/dpa/AFP Pool/AP/picture alliance

جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ اس وقت فیصلہ کن موڑ پر ہے اور آنے والے ہفتے اور مہینے اس کی قسمت کا فیصلہ کردیں گے، تہران کو متنبہ کیا کہ 'اسے اب جو موقع دیا جا رہا ہے، اسے آخری موقع سمجھے اور اسے کسی صورت میں ضائع نہ کرے۔‘

ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والی عالمی طاقتیں اس معاہدے کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں اور انہیں امید ہے کہ امریکا دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہوجائے گا لیکن یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ کیا ایران معاہدے کی نئی شرطوں کو تسلیم کرلے گا۔

اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ملکوں کی گزشتہ ایک برس سے زیادہ کے عرصے میں ہونے والی پہلی اعلی سطحی میٹنگ کے بعد جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ امریکا کی جانب سے 'زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنے کی مہم‘ اور ایران کی جانب سے بعض شرائط پر انکار کی وجہ سے مذاکرات ’پیچھے کی طرف‘ جارہے ہیں۔

جرمنی، ایران، چین، روس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ کی طرف سے جاری ایک مشترکہ بیان میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو برقرار رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے اور نو منتخب صدر جو بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکا کے معاہدے میں واپسی کے امکانات کو'مثبت‘ قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2015 میں ہونے والے اس معاہدے کو 'تاریخ کا بدترین معاہدہ‘ قرار دیتے ہوئے سن 2018 میں امریکا کو اس سے یک طرفہ طور پر الگ کرلیا تھا۔

جوہری معاہدے سے امريکا کی دستبرداری: ايرانی کاروباری ادارے پريشان

بات نہیں عمل کی ضرورت ہے

جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ایران سے واضح لفظوں میں کہا کہ”بائیڈن انتظامیہ کے امریکا کی معاہدے میں ممکنہ واپسی کے لیے یہ ضروری ہے اب ایسی مزید پینترے بازی نہ کی جائے جو ہمیں حالیہ وقتوں میں اکثر دیکھنے کو ملتی رہی ہے۔ اس طرح کی حرکتوں سے معاہدے کو سوائے نقصان کے اورکچھ نہیں ہوگا۔ ہم یورپی ممالک اس بات پر مزید زور یتے ہیں کہ صرف شرائط کو تسلیم کرنا کافی نہیں ہوگا بلکہ بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہوگی۔"

برطانوی وزیر خارجہ ڈومنک راب نے ہائیکو ماس کی تائید کرتے ہوئے کہا”میں یہ بات بالکل واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ایران نے حال ہی میں اپنے جوہری پروگرام کو توسیع کرنے کا جو اعلان کیا ہے اسے نافذ نہ کرے۔ ایسا کرنا پیش رفت کے لیے ان مواقع کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہوگا جن کی ہم  2021 میں امید کر رہے ہیں۔"

ہائیکو ماس نے کہا کہ 'اسرائیل کی سکیورٹی ہماری اولین ترجیح ہے‘  اور جرمنی اس امر کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار تیار نہ کرے۔

پرانا معاہدہ یا نیا معاہدہ

امریکا کی جانب سے پابندیاں عائد کرنے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے حال ہی میں معاہدے کی بعض شرطوں کی خلاف ورزی شروع کردی تھی جن پر وہ اپنے جوہری پروگرام کو روکنے کے بدلے میں مالی امداد دینے کی وجہ سے عمل کر رہا تھا۔

گوکہ ایران نے بین الاقومی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو اپنے جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے دی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور اس نے بعض دیگر شرائط بھی پوری کی ہیں تاہم وہ مقررہ حد سے زیادہ یورینیم افزودہ کر رہا ہے۔

جوہری معاہدے سے امریکا کے الگ ہوجانے اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایران کے خلاف زبردست پابندیاں عائد کرنے نیز ایران کے ساتھ تجارت کرنے والوں کو پابندیوں کا نشانہ بنانے کے فیصلے کے بعد اس معاہدے کا وجود خطرے میں پڑ گیا تھا۔ معاہدے کو ختم کرنے سے قبل ٹرمپ انتظامیہ بارہا کہتی رہی تھی کہ ایران معاہدے کی شرطوں پر نہیں عمل کر رہا ہے۔

گزشتہ ماہ سخت گیر ایرانی سیاست دانوں نے ایک قانون منظور کرکے زیادہ یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ انہوں نے ایرانی جوہری تنصیبات تک آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کی رسائی پر روک لگانے کی بھی بات کہی تھی۔

امید کی جارہی ہے کہ جو بائیڈن کے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد، جو اس معاہدے پر دستخط کے وقت نائب صدر تھے، امریکا دوبارہ اس معاہدے میں واپس لوٹ سکتا ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کیا بائیڈن پرانے معاہدے کوتسلیم کریں گے، جو ایران کو پسند ہے، یا کسی نئے معاہدے پر زور دیں گے، جس میں ایران کی جانب سے مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مشرق وسطی میں اس کی مشتبہ سرگرمیوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔

ج ا/  ص ز (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں