1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتایران

ایرانی قالین بافی کی صنعت اور اس کے زوال کی کہانی

4 ستمبر 2022

ایرانی قالینوں کی خوبصورتی اور معیار کو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے لیکن اب مارکیٹ میں نئے کھلاڑی آ چکے ہیں اور گزشتہ تیس برسوں سے ان کی فروخت میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4GBWv
Iran, Kirokarsin | Größter Kelim-Teppich der Welt
ایران میں روایتی طور پر بنے ہوئے قالین تیز اور شوخ رنگوں میں پھولوں کے ڈیزائنوں کے حوالے سے مشہور ہیںتصویر: Farzaneh Chakhmagh Zas/Iran's Young Journalists Club/AFP/Getty Images

دنیا کے بدلتے ہوئے ذوق اور ایشیا میں بڑھتی ہوئی مسابقت نے ایرانی قالین سازوں کو اپنی دو ہزار سالہ پرانی روایت بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایرانی تاجر اپنے قالینوں کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنے اور ان کا سائز تبدیل کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

پینسٹھ سالہ احد عظیم زادے خود کو دنیا میں ایرانی قالینوں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا اس حوالے کہنا ہے، ''ایک بڑا انقلاب آ رہا ہے۔‘‘

ایران میں روایتی طور پر بنے ہوئے قالین تیز اور شوخ رنگوں میں پھولوں کے ڈیزائنوں کے حوالے سے مشہور ہیں لیکن گزشتہ تیس برسوں سے ان کی فروخت میں کمی آ رہی ہے۔ ہاتھ سے بنے قالین مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز یونین کے سربراہ احمد کریمی بتاتے ہیں، ''سن انیس سو چورانوے میں بیرون ملک فروخت ہونے والے ایرانی قالینوں کی مالیت 1.7 بلین ڈالر تک پہنچ گئی تھی اور یہ ہماری غیر پیٹرولیم برآمدات کا چالیس فیصد تھا۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ سن دو ہزار انیس اور بیس میں یہ مالیت کم ہو کر ستر ملین ڈالر تک رہ گئی تھی۔ اسی طرح سن دو ہزار میں ہاتھ سے بنے ہوئے قالینوں کی عالمی برآمدات میں ایران کا حصہ بتیس فیصد رہا۔ سن دو ہزار انیس کے مقابلے میں یہ تقریبا آٹھ فیصد کم تھا کیوں کہ مارکیٹ میں چین اور بھارت جیسے کھلاڑی آ چکے تھے۔

احمد کریمی کے مطابق بین لاقوامی پابندیوں نے بھی ایرانی قالین بافی کی صنعت کو متاثر کیا ہے تاہم اس زوال کی کئی دیگر اہم وجوہات بھی ہیں۔

Iran Teheran | Weberei Persischer Teppich
ایرانی قالینوں کے نمونے قدیم ہیں لیکن آج عصری ڈیزائنوں کی شدید مانگ ہےتصویر: Fatemeh Bahrami/Anadolu Agency/picture alliance

قالین برآمد کرنے والے احد عظیم زادے کہتے ہیں کہ مستقبل ہاتھ سے بنے ہوئے جدید اور نئے ڈیزائن والے قالینوں کا ہے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے تہران میں ہاتھ سے بنے قالینوں کی ایک نمائش سے بھی خطاب کیا۔ اس سات روزہ سالانہ تقریب میں ایران بھر سے تقریباً 400 نمائش کنندگان شریک تھے۔

 عظیم زادے کا اس نمائش میں خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا، '' ایسے ڈیزائن جدید گھروں کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔ ‘‘

اس ایرانی نمائش میں کئی نئے ڈئزائن والے قالین بھی رکھے گئے ہیں۔ عظیم زادے کا مزید کہنا تھا، ''نئے قالینوں کے رنگ ہلکے ہیں اور سائز چھوٹے ہیں۔‘‘

نئے ڈیزائن والے قالین سستے بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ کی قیمت  تین ہزار یا پھر چار ہزار ڈالر ہے، جب کہ عظیم زادے کے پاس تبریز میں تیار کردہ دو ہزار مربع میٹر کا ایک روایتی قالین بھی ہے، جس کی قیمت ایک سو بیس ملین ڈالر ہے۔ ان کے پاس کاشان کا ایک سو ستر سال پرانا پیس بھی ہے، جو تقریباً ایک لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر میں دستیاب ہے۔

عظیم زادے کے مطابق اس نمائش میں بھی زیادہ تر روایتی قالین ہی رکھے گئے ہیں لیکن مستقبل میں ان کی تعداد کم ہوتی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا، ''اگلے سال یہاں ستر فیصد تک جدید قالینوں کی نمائش ہو گی۔‘‘

برآمد کنندگان کی یونین سے تعلق رکھنے والے کریمی افسوس کا ظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ  آج کل ایرانی قالین کو دروازے کے سامنے رکھنے والا کارپٹ سمجھا جا رہا ہے جب کہ ماضی میں یہ ایک سرمایہ کاری تھی، ''یہ بطور آرٹ کا نمونہ اپنی حیثیت کھو چکا ہے۔‘‘

ایک اور تاجر عباس عرسین کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں بھارت، پاکستان، ترکی اور چین جیسے ممالک آ چکے ہیں کیوں کہ ایران کے باقی دنیا کے ساتھ تعلقات محدود ہو چکے ہیں، ''ہم ان تبدیلیوں کا اندازہ نہیں لگا پائے، جو عالمی منڈی میں آ رہی تھیں۔‘‘

تاہم اب بھی بہت سے ایران نئے اور جدید ڈیزائنوں والے قالینوں کی طرف نہیں جانا چاہتے۔

کشمیر میں پیپر ماشی کے فن کو زوال کا سامنا

ایران کارپٹ کمپنی کے بیالیس سالہ ڈائریکٹر مہدی جمشیدی کا کہنا ہے، ''ایک سال پہلے ہم نے جدید ڈیزائن میں قالین بنانا شروع کیے تھے لیکن وہ ہماری مجموعی پیداوار کا صرف پانچ فیصد ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ ہم اس سے آگے بڑھیں گے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ماڈرن کارپٹ کبھی بھی ایران کے روایتی قالینوں کی جگہ نہیں لے سکتے کیوں کہ روایتی قالین کی جڑیں ہماری ثقافت اور علاقے سے جڑی ہوئی ہیں۔

چون سالہ حامد سیاحفر بھی ایک تاجر ہیں اور تہران سے ٹورنٹو کے درمیان سفر کرتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نئے جیومیٹرک سٹائل کے قالین دفتروں کے لیے تو موزوں ہو سکتے ہیں لیکن گھروں کے لیے نہیں، ''یہ صرف ایک فیشن ہے اور ہر فیشن کی طرح یہ بھی غائب ہو جائے گا۔‘‘

ا ا / ع س (اے ایف پی)