1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایبولا وائرس کے بعد دنیا کو دو مزید مہلک بیماریوں کا سامنا

عابد حسین11 جنوری 2016

مغربی افریقہ ملکوں میں ایبولا کو موت کا استعارہ خیال کیا جاتا ہے۔ اب مزید دو خطرناک بیماریوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ طبی حلقوں نے بین الاقوامی اداروں سے فوری طور پر ریسرچ شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HbUm
ذیکا وائرس پھیلانے والا مچھرتصویر: picture-alliance/dpa/picture alliance / United Archive

ایبولا کے بعد سامنے آنے والی دو بیماریوں میں ایک میلیوڈوسِس اور دوسری ذیکا ہے۔ میلیوڈوسِس کا ایک جملے میں تعارف یہ ہے کہ یہ خسرے کی طرح بےشمار انسانوں کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہے۔ ذیکا بھی ملیریا کی طرح مچھر سے پیدا ہونے والی ایک بیماری ہے اور یہ وائرس عالمی سطح پر وباء کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔

طبی حلقوں نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور دوسرے ریسرچ سے منسلک دوا ساز اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ اِس وائرس اور بیکٹیریا کے حوالے سے اپنی ریسرچ کا آغاز کر دیں تا کہ فوری تدارک کیا جا سکے۔

میلیوڈوسِس بیکٹیریا کے بارے میں ابتدائی معلومات معتبر جریدے ’نیچر مائیکروبیالوجی‘ میں شائع ہوئی ہیں۔ ریسرچرز نے بیکٹیریا کے بارے میں ریسرچ کر کے مدافعتی دوا تیار کرنے کا مشورہ دیا ہے اور اُن کا خیال ہے کہ اگر فوری طور پر عمل شروع نہ کیا گیا تو ایبولا کی طرح کے مسائل جنم لیں گے اور عالمی سطح پر پریشانی پیدا ہو گی۔

اس مناسبت سے یہ اہم ہے کہ میلیوڈوسِس بیکٹیریا پر کئی اینٹی بائیوٹک ادویات بے اثر دکھائی دے رہی ہیں۔ محققین کا خیال ہے کہ میلیوڈوسِس ایسا بیکٹیریا ہے جو جہاں جنم لیتا ہے، اُس کی افزائش تیزی سے ہوتی ہے اور کسی بڑے علاقے میں یہ وباء کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔

Asien wird von der Bakterie Melioidosis geplagt
تھائی لینڈ میں میلیوڈوسِس بیکٹریا کی زمین اور ماحول میں موجودگی کے سلسلے میں ریسرچ کا عملتصویر: MORU 2016/G. Jörén

ذیکا وائرس کے بارے میں تفصیلات مشہور برطانوی آکسفورڈ یونیورسٹی نے عام کی ہیں۔ یونیورسٹی کے ریسرچرز نے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ ذیکا وائرس مچھر کے ذریعے ایک مقام سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے اور بخار جیسی بیماری پھیلتی ہے۔ برازیل میں اِس کی پہلی وباء پھیل چکی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ذیکا وائرس کے کئی اور علاقوں میں پھیلنے کا خطرہ موجود ہے۔ یہ وائرس پہلی مرتبہ سن 1940 میں ڈھونڈا گیا تھا اور گزشتہ برس تک امریکا میں اِس کے حوالے سے کوئی بنیادی معلومات تک دستیاب نہیں تھیں۔ ذیکا وائرس کا حامل مچھر برازیل کے علاوہ پاناما، وینزویلا، السلواڈور، میکسیکو، سُری نام، ڈومینیک ریپبلک، کولمبیا، گوئٹے مالا اور پیراگوئے میں تلاش کیا جا چکا ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبے گلوبل ہیلتھ ریسرچ سے منسلک پروفیسر ٹروڈی لانگ کا کہنا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ عام لوگوں کو بتایا جائے کہ عالمی برادری نے ایبولا وائرس کے پھیلنے اور اُس پر قابو پانے کی کوششوں سے کیا سیکھا ہے۔ لانگ کے خیال میں اب ان معلومات کی روشنی میں ضروری ہے کہ ذیکا وائرس کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کے سلسلے کو شروع کر دیا جائے تاکہ کسی وباء کی صورت میں مؤثر دوا پہلے سے تیار ہو۔

میلیوڈوسِس کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ کسی بیمار جانور کے ذریعے کئی دوسرے ملکوں میں اِس کی افزائش ممکن ہے۔ اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد اِس بیکٹیریا میں مبتلا پائے گئے ہیں۔ میلیوڈوسِس بیکٹیریا جنوبی ایشیا، مشرقی ایشیا، جنوب مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل میں وباء کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔