1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: حالیہ مظاہرے کیا حکومت مخالف تحریک بن سکے گی؟

جاوید اختر، نئی دہلی
18 جون 2022

اربوں روپے کے سرکاری اور نجی املاک کے نقصان اور ایک سے زائد شخص کی ہلاکت کے بعد مودی حکومت نے'اگنی پتھ' اسکیم میں بعض ترامیم کا اعلان کر دیا ہے۔ تاہم مخالفت اب بھی جاری ہے، مظاہروں کا سلسلہ آٹھ ریاستوں تک پھیل گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4CtOa
Indien | Protests gegen das Agnipath-Programm an einem Bahnhof in Chhapra
تصویر: IANS

بھارتی افواج میں بھرتی کے لیے مودی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ 'اگنی پتھ' نامی نئی اسکیم اپنے نام کے عین مطابق "شاہراہ آتش" ثابت ہو رہی ہے۔ اس اسکیم کے اعلان کے ساتھ ہی گویا کروڑوں بے روزگار نوجوانوں کے دلوں میں موجود لاوا اچانک پھوٹ پڑا۔ ہندی میں اگنی آگ کو کہتے ہیں اور پتھ راستہ جبکہ استعاراتی طور پر اس کا مطلب سچ یا حق کا راستہ جو  مروجہ تشریحات کے تحت مشکلات سے پُر ہوتا ہے۔

اس غیر متوقع صورت حال پر قابو پانے کے لیے حکومت نے یکے بعد دیگر دو ترامیم کا اعلان کیا۔ جمعے کے روز حکومت نے ملازمت میں بھرتی کے لیے عمر کی حد21 سے بڑھا کر 23 برس کردی۔ آج ہفتے کے روز اس نے چار برس کی ملازمت مکمل کرنے والوں کو مرکزی مسلح پولیس فورسز میں بھرتی میں 10فیصد ریزرویشن دینے کا بھی اعلان کیا۔

لیکن وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ، وزیر داخلہ امیت شاہ اور تینوں افواج کے سربراہوں نیز بی جے پی کے متعدد وزرائے اعلی اور اہم رہنماوں کی یقین دہانیوں اور وعدوں کے باوجود مظاہرین کی ناراضی کم نہیں ہورہی ہے۔

اس اسکیم کے خلاف آج ریاست بہار بند ہے۔ جہاں 38 میں سے 18اضلاع میں انٹرنیٹ سروسز معطل کردی گئی ہیں اور حالات پر قابو پانے کے لیے سخت سکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔

فوج میں بھرتی کی نئی اسکیم کے خلاف اتنے بڑے پیمانے پر برہمی سے پریشان وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھارتی افواج کے تینوں سربراہوں کے ساتھ آج تبادلہ خیال کیا۔

بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ہری کمار نے کہا وہ پچھلے ڈیڑھ برس سے اس اسکیم پر کام کر رہے تھے لیکن انہیں اس کے خلاف اس طرح کے مظاہروں کی قطعی توقع نہیں تھی۔

Indien | Proteste gegen Armee-Rekrutierungsprogramm Agnipath
تصویر: ANI/Handout/REUTERS

کیا یہ مظاہرے حکومت مخالف تحریک میں تبدیل ہوسکیں گے؟

'اگنی پتھ' کے خلاف سب سے شدید مظاہرے بہار میں ہو رہے ہیں، جہاں بی جے پی اور جنتا دل یونائٹڈ کی مخلوط حکومت ہے۔ بھارت میں کئی سیاسی تحریکوں کا آغاز بہار سے ہی ہوا، ان میں حالیہ عرصے کی سب سے مشہور تحریک 'جے پرکاش آندولن'یا جے پی تحریک ہے۔

آج بھارت کے کئی اہم سیاسی رہنما اسی تحریک کی ہی دین ہیں۔ سن 1975میں اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی طرف سے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف معروف گاندھیائی رہنما جے پرکاش نارائن نے بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے جو تحریک شروع کی تھی، وہ پورے ملک میں پھیل گئی اور بالآخر اندراگاندھی کی حکومت کے اختتام پر منتج ہوئی تھی۔

سیاسی مبصرین کے خیال میں ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ 'اگنی پتھ' کے خلاف ہونے والے مظاہرے مودی حکومت مخالف تحریک میں تبدیل ہو سکے گی؟

بھارت اور بالخصوص بہار کی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی سمیع احمد نے پٹنہ سے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ فون پر بات چیت کرتے ہوئے کہا، "فی الحال یہ مظاہرہ ہے، تحریک نہیں اور تحریک میں کب تبدیل ہو گا اس کے لیے انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ تحریک بننے میں وقت لگتا ہے، یوں بھی ابھی تک کوئی رہنما ان مظاہرین کی قیادت کے لیے سامنے نہیں آیا ہے۔"

Indien | Proteste gegen Armee-Rekrutierungsprogramm Agnipath
تصویر: ANI/Handout/REUTERS

دیکھیے نشہ کب اترتا ہے

سمیع احمد کا کہنا تھا کہ حکومتیں بہت شاطر ہوتی ہیں وہ اپنی شاطرانہ چالوں سے کچھ نہ کچھ ایسا کام ضرور کر دیتی ہیں کہ مظاہرہ تحریک میں تبدیل نہیں ہو پاتا۔

انہوں نے کہا، ''حکومت کے پاس اس طرح کے مظاہروں کو دبانے کے لیے بہت سارے حربے ہیں۔ وہ کوئی دوسرا ایسا موضوع چھیڑ دی گی، جو بہت زیادہ متنازعہ ہو، خاص طورپر ہندو اور مسلمانوں کا کوئی معاملہ۔ وہ جب چاہے مظاہرے کا رخ موڑ سکتی ہے جس سے آگ ٹھنڈی پڑ جائے گی۔‘‘

مودی حکومت کے لیے مشکل یہ ہے کہ اگر وہ اس اسکیم کو واپس لیتی ہے تو یہ الزام لگے گا کہ اس نے بلا سوچے سمجھے قدم اٹھایا تھا اور اگر واپس نہیں لیتی ہے تو مظاہروں کا سلسلہ تیز ہوسکتا ہے۔  سمیع احمد نے مزید کہا، ''دراصل حکومت کو یہ نشہ ہے کہ اس کے پاس اتنے زیادہ ووٹ ہیں کہ اسے کوئی اقتدار سے ہٹا نہیں سکتا۔ وہ ان مظاہروں کو دبا دے گی، اس کا رخ بدل دے گی۔ لیکن دیکھیے یہ نشہ کب اترتا ہے۔‘‘

سمیع نے کہا کہ کسانوں کی حالیہ تحریک اس کی واضح مثال ہے۔ حکومت بہت دنوں تک زرعی قوانین کے فائدے بتاتی رہی لیکن بالآخر اس قانون کو واپس لے لیا اور اس کا اسے فائدہ بھی ہوا۔ بالخصوص اترپردیش میں بی جے پی دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

Indien | Protests gegen das Agnipath-Programm an einem Bahnhof in Chhapra
تصویر: IANS

ناراضی کی ایک وجہ حکومت کے مبینہ جھوٹے وعدے

'اگنی پتھ' اسکیم کی افادیت یا اس کے نقصانات اپنی جگہ لیکن نوجوانوں کی ناراضی کی ایک بڑی وجہ مودی حکومت کے وہ بعض وعدے بھی ہیں جو آٹھ برس گزر جانے کے باوجود وفا نہیں ہوسکے۔

سن 2014 میں بڑی تعداد میں نوجوانوں نے بی جے پی کواس لیے ووٹ دیا تھا کیونکہ اس وقت ریاست گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی نے ہر سال دو کروڑ ملازمت دینے کا ان سے وعدہ کیا تھا۔

آٹھ برس گزرجانے کے بعد وزیر اعظم مودی نے گزشتہ دنوں نے اعلان کیا کہ حکومت 'مشن موڈ' میں اگلے 18ماہ کے دوران 10لاکھ نوجوانوں کو ملازمت دے گی۔ خیال رہے کہ اگلے عام انتخابات تقریباً 18ماہ کے بعد ہی ہوں گے۔

بیشتر نوجوان مودی کے سابقہ اور اس نئے اعلان کو بھی 'دھوکہ' قرارد ے رہے ہیں۔ اپوزیشن کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے اس پر طنز کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا، "یہ حکومت جملوں والی نہیں بلکہ 'مہا جملوں '(حد سے زیادہ جھوٹی باتوں) والی ہے۔ وزیر اعظم ملازمت پیدا کرنے کے ماہر نہیں بلکہ ملازمت کے بارے میں خبریں بنانے کے ماہر ہیں۔"

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید