1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اٹلی ميں تارکين وطن سے متعلق غلط فہمياں اور حقائق

عاصم سلیم
25 فروری 2018

اٹلی ميں آئندہ ماہ ہونے والے عام انتخابات ميں مہاجرين کا بحران ايک اہم موضوع ہے۔ اگرچہ چند قوتيں اس بحران اور صورتحال کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہيں ليکن کيا واقعی اٹلی ميں مہاجرين حکومت اور نظام پر بوجھ ہيں؟

https://p.dw.com/p/2tIjM
Italien Demonstration in Mailand gegen Rassismus nach Schüssen auf Migranten in Macerata
تصویر: picture alliance/ROPI/Alberico

سياسی پناہ کے ليے پچھلے چند برسوں کے دوران يورپ کا رخ کرنے والے لاکھوں تارکين وطن کی ايک اہم منزل اٹلی ميں چار مارچ کو عام انتخابات ہو رہے ہيں۔ سابق وزير اعظم سلويو برلسکونی کی قيادت ميں دائيں بازو کا ايک سياسی اتحاد، ان دنوں عوام کے کچھ حصوں ميں پائے جانے والے مہاجرين مخالف جذبات کا فائدہ اٹھانے کی کوششوں ميں ہے۔ اٹلی ميں اميگريشن کے حوالے سے بہت سی غلط فہمياں بھی پائی جاتی ہيں۔

اعداد و شمار جمع کرنے والے اٹلی کے قومی ادارے Istat کے مطابق اس وقت ملک ميں تقريباً پانچ ملين غير ملکی قانونی طور پر رہائش پذير ہيں۔ غير ملکی، ساڑھے ساٹھ ملين افراد پر مشتمل ملک کی مجموعی آبادی کا 8.3 فيصد بنتے ہيں۔ 2013ء سے لے کر 2018ء کے اوائل تک تقريباً 690,000 تارکين وطن پناہ کے ليے سمندری راستوں سے اٹلی پہنچ چکے ہيں۔ اٹلی پہنچنے والے مہاجرين کی  اکثريت کا تعلق بر اعظم افريقہ ميں صحارا ريگستان کے جنوب ميں واقع ممالک سے ہے۔ ہجرت کے موضوع پر تحقيق کرنے والے ادارے ISMU کے مطابق، اس وقت لگ بھگ پانچ لاکھ افراد يا ملکی آبادی کا 0.9 فيصد حصہ، غير قانونی طور پر اٹلی ميں رہائش پذير ہے۔

روم حکومت کے پچھلے سال کے اعداد و شمار کے مطابق ليبيا سے اٹلی پہنچنے والے تارکين وطن پر کُل 4.2 بلين يورو کے اخراجات آئے، جن کا پينسٹھ فيصد حصہ مہاجرين کے اندراج کے عمل کے دوران ديکھ بھال پر صرف کيا گيا۔ تاہم ايڈوس انسٹيٹيوٹ نامی ايک اطالوی ادارے کے اعداد و شمار کی رُو سے مہاجرين پر پچھلے سال جتنے اخراجات آئے، يہ مہاجرين اس رقم سے 2.1 تا 2.8 بلين يورو زيادہ کی آمد کا سبب بھی بنے۔

آئيوری کوسٹ سے تعلق رکھنے والا بتيس سالہ تارک وطن موسی بامبا کہتا ہے، ’’يہاں لوگ پاگل ہو جاتے ہيں۔ کئی ايسے نوجوان ہيں جو کچھ ماہ بعد بالکل نڈھال ہو جاتے ہيں۔‘‘ بامبا نے چند ماہ وينس کے قريب واقع ايک ايسے کيمپ ميں گزارے، جہاں گنجائش سے کہيں زيادہ يا چودہ سو تارکين وطن مقيم تھے۔ کونيٹا نامی اس مرکز کو مقامی ميئر ايلبرٹو پينفيليو کو ’ہيومن ويئر ہاؤس‘ بھی کہہ چکے ہيں۔ اٹلی ميں چند مراکز ميں سہوليات دستياب ہيں ليکن کئی ايسے بھی ہيں جہاں اخراجات بچائے جاتے ہيں جس سبب سہوليات کی عدم دستيابی ايک مسئلہ ہے۔ يہ امر بھی اہم ہے کہ اٹلی ميں مہاجرين کو اپنی سياسی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی کے ليے دو دو سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔

اٹلی کی وزارت داخلہ کے مطابق پچھلی ايک دہائی کے دوران ملک ميں غير ملکيوں کی تعداد ميں تين سے پانچ ملين تک کا اضافہ ہوا ہے جبکہ اسی دوران جرائم کی شرح ميں 8.3 فيصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ پچھلے سال کے اعداد و شمار کے مطابق ايک دہائی ميں قتل کی وارداتوں ميں بارہ فيصد، چوری کے کيسز ميں گيارہ فيصد جبکہ ڈکيتيوں کی تعداد نو فيصد کمی ہوئی ہے۔

روم  اور ليبيا کی حکومتوں اور وہاں سرگرم مختلف مليشيا کے ساتھ متنازعہ معاہدے کے بعد پچھلے سال ليبيا سے بحيرہ روم کے راستے اٹلی پہنچنے والے تارکين وطن کی تعداد ميں ستر فيصد کی واضح کمی رونما ہوئی۔ اسی دوران اٹلی سے ملک بدر کيے جانے والوں کی تعداد ميں بھی بارہ فيصد اضافہ ريکارڈ کيا گيا۔ سن 2016 ميں 5,817 تارکين وطن کو اٹلی سے ان کے آبائی ممالک روانہ کيا گيا تھا جبکہ پچھلے سال يہ تعداد 6,514 رہی۔

ڈکیتی ناکام بنانے والا گمنام تارک وطن