1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ايران جوہری ہتھياروں کے حصول سے چند ہفتے دور، اسرائيلی وزراء

5 اگست 2021

اسرائيلی اعلیٰ قيادت نے دعویٰ کيا ہے کہ ايران جوہری ہتھياروں کے حصول سے صرف دس ہفتے دور ہے۔ مبصرين کی رائے ميں ايران اور اسرائيل ’خفيہ جنگ‘ جاری رکھے ہوئے ہيں اور مستقبل قريب ميں صورت حال مزيد بگڑ سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/3yaNs
Iran Khomeini Spaceport | Iran Rocket Launch
تصویر: Planet Labs Inc/AP Photo/picture alliance

اسرائيلی وزير خارجہ ييئر لپيڈ اور وزير دفاع بينی گانٹر نے دعویٰ کيا ہے کہ اگر ايران چاہے، تو صرف دس ہفتوں کے اندر اندر جوہری ہتھيار تيار کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق يہ سن 2015 ميں عالمی قوتوں کے ساتھ جوہری معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہو گی۔ اسرائيلی وزراء نے چار اگست کو جاری کردہ تفصيلی بيان ميں يہ الزام بھی عائد کيا کہ 'ميرسر اسٹريٹ‘ نامی آئل ٹينکر پر حاليہ حملے ميں ايران ملوث تھا۔ ايرانی پاسداران انقلاب کے ايک سينئر اہلکار پر براہ راست انگلی اٹھائی گئی ہے۔

حاليہ حملوں کا پس منظر

رواں سال چوبيس اپريل کو شامی بندرگاہ بانياس پر ايک ايرانی آئل ٹينکر پر ڈرون حملہ کيا گيا تھا جس ميں تين افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ ٹينکر بھی آتش زدگی کا شکار ہو گيا تھا۔ يہ ايران کی اسرائيل اور اس کے خليجی پڑوسی ملکوں کے ساتھ کشيدگی کی تازہ ترين مثال تھی۔

اب ايران ميں سخت گير نظريات کی حامل قوتيں حکومت ميں ہيں۔ ايسے ميں يہ تنازعہ شدت اختيار کرتا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے دن خليج عمان ميں اسرائيلی آپريٹر کے ايک تجارتی بحری جہاز پر حملہ ہوا جس کے ليے ايران کو قصور وار ٹھہرايا جا رہا ہے۔ اسی ہفتے منگل کو ايک بحری جہاز کو ہائی جيک کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔

ايران کے ایٹمی پروگرام پر اسرائيلی ڈرامہ سيريل

’خفيہ ايٹمی پروگرام سے متعلق اسرائيلی الزام بے بنياد ہے‘

ایران معاملے پر اسرائیل کا امریکا کے ساتھ رہنے کا عہد

اسرائيل اور ايران کے تنازعے کی ايک کليدی وجہ ايران کا متنازعہ جوہری پرگرام ہے۔ دس اپريل کو ايران کے مرکزی نطنز کے جوہری پلانٹ پر ايک سائبر حملہ ہوا۔ امريکی اخبار 'دا نيو يارک ٹائمز‘ کے مطابق اس حملے ميں ايک پاور پلانٹ اور سينٹريفيوجز کو نقصان پہنچا، تہران حکومت نے اسرائيل پر الزام عائد کرتے ہوئے اسے 'جوہری دہشت گردی‘ قرار ديا۔

صدر جو بائيڈن کی قيادت ميں امريکی حکومت ايران کے ساتھ از سر نو ايک ڈيل تشکيل دينا چاہتی ہے ليکن اس ضمن ميں مذاکراتی عمل تعطلی کا شکار ہے۔ اب جبکہ ابراہيم رئيسی صدر کے منصب پر فائض ہو رہے ہيں، ايران کے موقف اور حکمت عملی ميں سختی متوقع ہے۔ انہيں سپريم ليڈر آيت اللہ علی خامنہ ای کی حمايت حاصل ہے، جو بارہا کہتے آئے ہيں کہ امريکا کے ليے آئندہ کی کسی ممکنہ ڈيل سے يک طرفہ عليحدگی اختيار کرنا ممکن نہ ہو گا۔ ايران چاہتا ہے کہ بائيڈن انتظاميہ يہ يقين دہانی کرائے اور اس کی بھی کہ مزيد پابنديوں کا اعلان نہيں کيا جائے گا۔ يہ وہ معاملہ ہے، جسے کانگريس سے منظور کرانے ميں بائيڈن انتظاميہ کو يقيناً مشکل پيش آئے گی۔

يہ امر اہم ہے کہ سن 2015 ميں جوہری ڈيل کو حتمی شکل ديے جانے سے پہلے کے کچھ عرصے ميں بھی ايران اور اسرائيل کے مابين شديد کشيدگی جاری تھی۔ تہران ميں ايک جوہری سائنسدان کا مبينہ قتل، نئی دہلی ميں اور بينکاک ميں اسرائيلی سفارت کارروں پر مشتبہ ايرانی حملے اور بلغاريہ ميں اسرائيلی سياحوں کی بس پر دھماکا يہ سب واقعات اسی دور کے ہيں۔ سن 2018 ميں امريکا کی جوہری ڈيل سے عليحدگی کے بعد گزشتہ ايک دو برسوں کے دوران اسی طرز کے حملوں ميں اضافہ ديکھا گيا ہے۔ دو برس قبل خليج کے خطے ميں آئل ٹينکروں پر حملے ديکھے گئے۔ اب ديکھنا يہ ہے کہ ايران ميں نئی انتظاميہ کيا حکمت عملی اختيار کرتی ہے۔

ع س / ع ت )روئٹرز)