1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوسلو دہشت گردانہ حملے کی دسویں برسی، یادگار تاخیر کا شکار

21 جولائی 2021

اوسلو حملے کی مجوزہ یادگار دس برس بعد بھی مکمل نہیں ہو سکی۔ اس کی تعمیر میں کئی عوامل حائل ہیں، جن میں عدالتی مداخلت، میموریئل کے ڈیزائن میں تبدیلی وغیرہ نمایاں ہیں۔

https://p.dw.com/p/3xnP6
Zwei Jahre nach den Anschlägen in Norwegen
تصویر: picture-alliance/dpa

امریکا میں ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ حملوں کی یادگار دسوین برسی پر عام لوگوں کے لیے کھول دی گئی تھی مگر ناروے میں ایسا نہی ہو سکا اور ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اس یادگار کی تعمیر کی ضرورت کو محسوس کرنے سے قاصر ہے۔

حملے کے بعد ناروے میں مساجد کی سکیورٹی بڑھا دی گئی

 ناروے کے شہری حملے کے مقام والے گاؤں کے پارک اور دوسری جگہوں پر پھول کی پتیاں یا شمعیں روشن کرتے رہتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارا گاؤں ترپن ملین کی آبادی والے ملک کے شہریوں کے لیے کتنی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔

Norwegen 2. Jahrestag Doppelanschlag von Oslo und Utoya
اوسلو حملے کے مقام پر رکھے گئے پھول اور ناروے کا جھنڈا: فائل فوٹوتصویر: picture-alliance/dpa/R. Berit

میموریئل کی تعمیر میں تاخیر

اوسلو دہشت گردانہ حملوں  کے لیے یادگار کی تعمیر ابھی تک انجام کو نہیں پہنچ پائی۔ اس یادگار کا ابتدائی ڈیزائن نہایت مہارت سے بنایا گیا تھا لیکن بعد میں اسے تبدیل کر دیا گیا۔ حادثے کے مقام والے گاؤں کے باسیوں کو بھی اس میموریئل پر اعتراض ہے۔

ہلاک ہونے والوں کے والدین اور بچ جانے والوں کا خواب ان پیچیدگیوں کی وجہ سے ابھی تک ادھورا ہے اور انہوں نے تعمیر میں تاخیر کو ایک ناقابل معافی غفلت قرار دیا ہے۔ مقامی باشندوں کا کہنا ہے میموریئل کے مقام پر مسلسل لوگوں کی آمد ان میں بیچینی اور ناراضی کا سبب بن سکتی ہے۔

بریوک 21 برسوں کے لیے سلاخوں کے پیچھے

گلاب کے پھول اور حملے کے مقام پر کیفے

اوسلو میں مرکزی گرجا گھر کے باہر دہشت گردانہ حملوں کی یاد میں ایک ہزار لوہے سے بنے گلاب کے پھولوں کا افتتاح سن 2019 میں کیا گیا تھا۔ یوٹویا میں ایک لٹکتی انگوٹھی پر ہر ہلاک ہونے والے کا نام لکھا ہوا ہے اور حملے کے مقام کا کیفے اب ایک یادگاری تدریسی مرکز بن چکا ہے۔ اس کیفے کے ارد گرد چار سو پچانوے لکڑی کے ڈنڈے بھی نصب ہیں، جو بچ جانے والوں سے منسوب ہیں۔

تاخیر پر متاثرین ناراض

لزبتھ کرسٹین روئنلینڈ کی بیٹی سینے یوٹویا میں کیے گیے حملے میں ہلاک ہوئی تھی۔ یہ خاتوں اس وقت متاثرہ خاندانوں کے گروپ کی سربراہی کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مجوزہ یادگار ایک خوبصورت میموریئل ہے اور کئی حوالوں سے مرنے والوں کی یاد دلائے گی لیکن تاخیر سے انہیں مایوسی ہوئی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی متاثرہ خاندان اس مناسبت سے غم و غصے کا شکار ہیں۔

Norwegen Terror Anders Behring Breivik Gericht Prozess in Oslo
اوسلو دہشت گردانہ حملوں کا مجرم اندریس بیہرنگ بریوک عدالت میں مقدمے کی سماعت کے وقتتصویر: Reuters

اصل واقعہ

22 جولائی 2011ء کو پورا ناروے اس وقت ششدر رہ گیا تھا جب دارالحکومت اوسلو میں ایک حکومتی عمارت کے باہر ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں آٹھ افراد اور اس کے بعد یوٹویا نامی جزیرے پر لیبر پارٹی کے ایک یوتھ کیمپ پر فائرنگ کے نتیجے میں 69 دیگر افراد ہلاک ہو گئے۔ بائیس جولائی 2011ء میں رونما ہونے والا یہ واقعہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ناروے میں دہشت گردی کا بدترین واقعہ تھا۔ بریوک کو اگست سن 2012 میں 77 انسانوں کو ہلاک کرنے کے جرم میں 21 برس کی قید سزا سنائی جا چکی ہے۔

ناروے میں حملے: ملزم کے اہداف اور بھی تھے

 خیال کیا جاتا ہے کہ یورپی ممالک میں ہونے والے دہشت گردانہ واقعات کے رد عمل میں سکیورٹی بڑھانے کی بہت اہمیت ہے اور یہ انجام کار شہری آزادیوں میں کمی کا باعث ہوتا ہے، مگر ناروے کے عوام نے اس واقعے پر اپنے کھُلے معاشرے کی پہچان کو ترجیح دی۔

ع ح/ک م (اے پی)