1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما کے بعد واشنگٹن اور یروشلم کے تعلقات

27 فروری 2009

باراک اوباما کے منصب صدارت پر براجمان ہونے کے بعد سے عالمی دنیا میں سب سے زیادہ نگاہ امریکی کی خارجہ پالیسیوں میں متوقع تبدیلی کے حوالے سے ہے۔ امریکہ اوراسرائیل کے تعلقات کے حوالے سے پیٹر پیلپ کا لکھا تبصرہ:

https://p.dw.com/p/H2CL

باراک اوباما کے اقتدار میں آنے کے بعد سے واشنگٹن اور یروشلم کے مابین بات چیت کا لہجہ بدل گیا ہے۔ نئی امریکی حکومت کے عہدیداروں نے اسرائیل کو یقین دلایا ہے کہ امریکی اسرائیلی تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

اسرائیل سے امریکی توقعات میں دو باتوں پر سب سے زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ غزہ پٹی کے علاقے میں حالیہ جنگ کے اثرات کا ازالہ اور فلسطینیوں کے ساتھ قیام امن کی ٹھوس کوششوں کی بحالی کے لئے تیاریاں۔ جارج مچل پہلے ہی یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ باقاعدگی سے خطے کے دورے کرتے رہیں گے اور ہوسکتا ہے کہ یروشلم میں اپنا ایک علاقائی ہیڈکوارٹڑ بھی قائم کرلیں۔

Obama in Israel - Besuch in Grenzstadt Sderot
اپنی صدارتی مہم کے دوران اوباما، اسرائیلی وزیر خارجہ زیپی لیونی کے ہمراہتصویر: picture-alliance/ dpa

اسرائیلی فلسطینی تنازعے میں جارج مچل سب سے پہلے مغربی اردن کے علاقے میں یہودی بستیوں کے معاملے پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔ اسی سلسلے میں جارج مچل اور نئی امریکی انتظامیہ کے دیگر عہدیدار بھی اسرائیل پر یہ واضح کرچکے ہیں کہ اگر اس نے ان بستیوں سے متعلق اپنی سیاست جاری رکھی تو وہ امن کوششوں کے لئے بڑی رکاوٹ بنی رہے گی۔ یہی بات اسرائیلی حکومت کی بار بار کی سیاسی ضمانتوں کی نفی بھی کرتی ہے۔

جارج مچل پر اب تک واضح ہو چکا ہوگا کہ اسرائیل کو اس کی یہودی بستیوں میں توسیع کی سیاست سے باز رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔ اس کے لئے انہیں اب اور بھی زیادہ محنت اس وجہ سے بھی کرنا ہوگی کہ اسرائیل میں دس فروری کے الیکشن کے بعد بھی وہاں سیاسی طاقت کی تقسیم بہت واضح نہیں ہے۔

دوسرا سب سے اہم موضوع غزہ پٹی کی تعمیر نو اور وہاں معمول کے حالات زندگی کی بحالی ہے۔ واشنگٹن اگلے ہفتہ کے اوائل میں مصر میں فلسطینی خود مختار انتظامیہ کو مالی امداد فراہم کرنے والے ملکوں اور اداروں کی کانفرنس سے پہلے ہی یہ اعلان کر چکا ہے کہ وہ فلسطینیو‌ں کی مدد کرتے ہوئے 900 ملین ڈالر مہیا کرے گا۔ ساتھ ہی امریکہ نے یورپی ملکوں کی طرف سے بھی فلسطینیوں کی مالی امداد کے لئے ایسے ہی وعدوں کی توقع ظاہر کی ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ امریکہ اور یورپی ملکوں نے اسرائیل پر یہ کہتے ہوئے کھلی تنقید بھی کی ہے کہ یہ امر ناقابل قبول ہے کہ دنیا فلسطینی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر وترقی کے لئے مدد کرتی رہے اور اسرائیل اگلے مسلح تنازعے میں یہ سارا ڈھانچہ پھر تباہ کردے۔

US Sondergesandter George Mitchell in Israel
امریکہ کے خصوصی مندوب برائے مشرق وسطیٰ جارج مچل اور اسرائیلی رہنما نیتن یاہوتصویر: AP

اسرائیل پر امریکہ اس وجہ سے بھی شدید تنقید کررہا ہے کہ وہ غزہ پٹی کے علاقے میں سول آبادی کو بنیادی اشیائے ضرورت کی فراہمی میں بھی مسلسل رکاوٹیں ڈال رہا ہے حالانکہ غزہ پٹی کے عوام کو اس طرح اجتماعی طور پر سزا دینے کی کوششوں کی نہ تو اجازت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی ان سے کوئی فائدہ ہوگا۔

جارج مچل علاقائی سطح پر قیام امن کی کوششیں نئے سرے سے شروع کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لئے وہ ترکی کو دوبارہ اسرائیل اور شام کے مابین ثالثی کی بھر پور کاوشوں پر بھی آمادہ کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی اس تاثر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ واشنگٹن یروشلم سے ٹھوس اقدامات کی توقع بھی کرتا ہے۔