1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

او آئی سی کا ایران مخالف مطالبہ، پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟

عبدالستار، اسلام آباد
31 مئی 2019

او آئی سی کے منتظمین کے مطابق اس اجلاس کا مقصد اسلامی ممالک کے مسائل پر بحث کرنا ہے۔ تاہم اس کی کارروائی نے واضح کردیا ہے کہ یہ نشست اسلامی ممالک کے مسائل حل کرنے کے بجائے ایران کے خلاف محاذ بنانے کے لیے استعمال ہوئی۔

https://p.dw.com/p/3JZHj
Türkei Gipfeltreffen der Organisation für Islamische Zusammenarbeit in Istanbul
تصویر: Getty Images/AFP/B. Ozkan

پاکستان میں مبصرین اور سیاست دانوں کا خیال ہے کہ او آئی سی اجلاس کا ایک اہم مقصد ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنا تھا۔ پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکڑ سرفراز خان کے خیال میں اس اجلاس کا مقصد ایران پر اس امریکی، اسرائیلی اور سعودی دباؤکو بڑھانا ہے، جو یہ ممالک پہلے سے تہران پر ڈال رہے ہیں۔

انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’خطے میں امریکی بیٹرے اور فوجی موجود ہیں۔ سعودی عرب اور ایران میں سخت کشیدگی ہے۔ ایسے موقع پر کوئی منطق نہیں تھی کہ اس اجلاس میں اسلامی ممالک کے مسائل پر بات چیت کی جائے اور وہ ہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ‘‘

Saudi-Arabien Riad vor dem Gipfel der Organisation für Islamische Zusammenarbeit
تصویر: picture-alliance/dpa

ان کے بقول،’’او آئی سی کے اجلاس کی اب تک کی کارروائی سے یہ بات واضح ہے کہ سعودی عرب ایران کے خلاف ٹھوس اقدامات چاہتا ہے اور اس سلسلے میں وہ مسلم ممالک کی حمایت چاہتا ہے۔ پاکستان سے وہ چاہتا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ تصادم کی صورت میں امریکا کو فوجی اڈے یا لوجسٹک سپورٹ دیں۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ملک ایک نئے بحران سے دوچار ہو جائے گا۔ لہذا ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے اور کسی بھی صورت سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ نہیں جانا چاہیے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب اس وقت سخت مشکل میں ہے اور ایسے موقع پر وہ اسلام آباد سے مدد چاہے گا،’’ریاض کو شام، عراق، لبنان اور یمن میں ہزیمت اٹھانا پڑی۔ اس کے تیل کی دولت سے مالا مال علاقوں میں شیعہ مسلک کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ بحرین میں بھی شیعہ اکثریت میں ہیں۔ اس کے علاوہ مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں ان کی اچھی بڑی تعداد موجود ہے۔ تو یہ سارے عوامل سعودی عرب کو پریشان کیے ہوئے ہیں۔ وہ اسرائیل اور امریکا کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف کچھ کرنا چاہتا ہے اور ایسی صورت میں وہ پاکستان سمیت دوسرے اسلامی ممالک کی حمایت چاہتا ہے اور اس اجلاس کا اہم مقصد یہ حمایت حاصل کرنا تھا، جو عراق کے اختلاف کی وجہ سے حاصل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔‘‘

Kasachstan - Gipfel der Organisation für islamische Zusammenarbeit OIC
تصویر: picture-alliance/Turkish Presidency/Y. Bulbul

سیاست دان مبصرین کی اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں کہ او آئی سی کے اجلاس کا مقصد ایران کے خلاف محاذ تیار کرنا ہے لیکن وہ اسلام آباد کو خبر دار بھی کر رہے ہیں کہ وہ ایران سعودی تنازعے میں فریق نہ بنے کیونکہ اس کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر محمد اکرم بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کےخیال میں اگر پاکستان فریق بنتا ہے تو یہ ملک کے لیے تباہی ہوگی،’’اس اجلاس کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ وہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف داری کرے کیونکہ یہ ممالک ہماری مالی امداد کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاض نے او آئی سی کے اجلاس کے دوران ایک طرح سے دوسرے مسلم ممالک پر بھی دباؤ ڈالا ہے کہ وہ قدامت پرست بادشاہت کا ساتھ دیں لیکن ہمارے لیے جانبداری تباہ کن ہو سکتی ہے کیونکہ ملک میں شیعہ افراد کی ایک بڑی تعداد ہے اور اس سے ہمارے سماجی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘‘

پاکستان میں ناقدین کا یہ دعوی ہے کہ ماضی میں اسٹریٹیجک فیصلوں پر پارلیمنٹ کو کبھی اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ محمد اکرم کا کہنا ہے کہ حکومت اگر سعودی ایران مسئلے پر کوئی فیصلہ کرنا چاہتی ہے تو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے،’’ اور وزیرِ اعظم عمران خان واپس آ کر قوم کو بتائیں کہ انہوں نے سعودی حکام سے کوئی ایسا وعدہ تو نہیں کیا ہے جو ملک اور قوم کے لیے تباہ کن ثابت ہو۔‘‘

Türkei, Präsident Joko Widodo in OIC Istanbul
تصویر: Laily Rachev/Biro Pers Setpres

ماضی میں پاکستان نے یمن کے مسئلے پر فریق بننے سے انکار کر دیا تھا۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ نواز شریف کے زوال کا ایک سبب یمن کے مسئلے میں فریق نہ بننے کا فیصلہ بھی تھا۔ اس وقت ملک کی پارلمنٹ نے ایک مشترکہ قرارداد میں غیر جانبداری کا مطالبہ کیا تھا۔ نون لیگ کا کہنا ہے کہ اب بھی ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ پارٹی کے ایک اہم رہنما سینیٹر مشاہد اللہ نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پی ٹی آئی والے نا تجربہ کار ہیں۔ اس لیے انہیں پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش پر انحصار کرنا چاہیے، جس نے ماضی میں یمن کے مسئلے پر غیر جانبدار رہنا کا کہا تھا اور اب وہ ایران اور سعودی عرب کے مسئلے پر بھی یہ ہی کہے گی۔ اگر یہ پارلیمنٹ میں اس مسئلے کو نہیں لائے تو خدشہ ہے کہ ان کی ڈوریاں کھینچنے والے کہیں کوئی ایسا فیصلہ نہ کر دیں، جو ملک اور قوم کے لیے تباہ کن ہو۔‘‘

پی ٹی آئی بھی اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں موجودہ کشیدگی کے تناظر میں پاکستان پر دباؤ ہے۔ پارٹی کے رہنما ظفر علی شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے ایسا کوئی فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوگا۔ ڈی ڈبلیو سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ او آئی سی کے اجلاس میں ایران سعودی کشیدگی سب سے اہم موضوع رہا اور پاکستان پر ریاض کی طرف سے بلا واسطہ یا بلواسطہ دباؤ ہے کہ وہ ایران سعودی تنازعے میں ریاض کا ساتھ دے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج اور پی ٹی آئی حکومت کے لیے یہ بہت مشکل ہوگا کہ وہ ایران یا سعودی عرب میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا فیصلہ کرے،’’میرے خیال میں ہمیں مکمل طور پر غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ ورنہ ملک تباہی سے دوچار ہو سکتا ہے۔‘‘

معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کے خیال میں پاکستان کو سعودی عرب کی ناراضگی کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے اور ہر حالت میں غیر جانبدار رہنا چاہیے،’’ہم نے کبھی سعودی عرب سے پوچھا کہ وہ بھارت میں اتنی سرمایہ کاری کیوں کر رہا ہے۔ ریاض اپنے قومی مفادات دیکھتا ہے اور ہمیں اپنے قومی مفادات دیکھنے چاہیے اور ایران سعودی تنازعے میں بالکل فریق نہیں بننا چاہیے۔‘‘

پاکستان میں یہ عام تاثر ہے کہ سعودی عرب اگر اسلام آباد سے ناراض ہوگیا تو وہ ہماری مالی امداد نہیں کرے گا لیکن جنرل امجد اس تاثر سے متفق نہیں، ’’ہم نے یمن کے مسئلے پر سعودی عرب کا ساتھ نہیں دیا لیکن اس کے باوجود بھی سعودی عرب ہماری امداد کر رہا ہے۔ مسئلہ صرف ایران کا نہیں ہے۔ ہم سعودی عرب میں سکیورٹی سمیت کئی دوسرے معاملات میں تعاون کرتے رہے ہیں اور اگر وہ امداد کرتے ہیں تو وہ ان جیسے امور کے لیے ہے۔ لیکن اگر ریاض ہمیں جانبداری کے لیے مالی مدد بھی دیتا ہے تو ہمیں ایسی مالی مدد کو مسترد کر دینا چاہیے اور تہران ریاض تنازعے میں مکمل طور پر غیر جانبدار رہنا چاہیے۔‘‘

اس صورتِ حال نے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں، جو ایک طرف ایران کا پڑوسی ہے اور دوسری طرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مالی مدد کا محتا ج ہے۔ واضح رہے کہ ریاض نے حال ہی میں پاکستان کو موخر ادائیگی پر تیل فراہم کرنے کا کہا ہے جب کہ سعودی حکومت نے پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کو بہتر کرنے کے لیے بھی تین بلین ڈالرز دیے ہیں۔

ریاض کا قریبی اتحادی ایران دشمن متحدہ عرب امارات بھی پاکستان کی مالی مدد کرنے کے لیے تیار ہے لیکن مبصرین کے خیال میں اسلام آباد کو اس کے لیے سعودی ایران تنازعے میں جانبداری دکھانی ہو گی۔

تیل کی پیداوار میں سعودی عرب اور امریکا مدِ مقابل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں