1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’انہوں نے کہا بھاگو، ہم بھاگ کھڑے ہوئے‘

شمشیر حیدر16 مارچ 2016

حسن عمر کو یونان اور مقدونیہ کے مابین سرحد عبور کرنے میں چار گھنٹے لگے۔ ناہموار اور گدلے پانی والے راستوں کو عبور کرنے میں کئی اجنبی افراد نے اس کی وہیل چیئر دھکیل کر مدد کی، لیکن اس کی سب کوششیں بیکار گئیں۔

https://p.dw.com/p/1IDvX
Idomeni Flussüberquerung Flüchtlinge Mazedonien
تصویر: DW/D.Tosidis

دن کا اختتام ہوا تو چلنے پھرنے سے معذور حسن عمر مقدونیہ کے بجائے واپس یونان پہنچ چکا تھا۔ ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح جب وہ غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر کے مقدونیہ کی حدود میں داخل ہوا تو مقدونیہ کی فوج نے انہیں تحویل میں لے کر واپس یونان بھیج دیا۔

درجنوں پاکستانی تارکین وطن کی یونان سے ترکی ملک بدری

رضاکارانہ طور پر واپس جاؤ، بائیس سو یورو ملیں گے

عمر کا کہنا تھا، ’’وہاں فوج دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ وہ لوگ ہمارے ساتھ نہایت سرد مہری سے پیش آئے۔ مجھے یوں لگا جیسے ہمارا واسطہ انسانوں سے نہیں بلکہ موت کی مشینوں سے ہے۔‘‘

عمر کا تعلق شورش زدہ ملک عراق سے ہے، وہاں سے نکلتے وقت بھی لوگوں نے اس معذور شخص کی مدد کی تھی۔ عمر کو اب بھی یاد ہے کہ کیسے ایک شخص نے اسے پانچ میل تک اپنے کندھوں پر اٹھا کر پہاڑی راستہ عبور کرایا تھا۔

ہزاروں تارکین وطن اپنے گھروں سے تو جرمنی اور دیگر مغربی یورپ کی جانب نکلے تھے لیکن یونان اور مقدونیہ کے مابین سرحد بند ہونے کے بعد وہ یونان میں محصور ہو کر رہ گئے۔

افغان مہاجرین کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا

پير کے روز پندرہ سو سے زائد تارکین وطن متبادل راستوں سے مقدونیہ کی حدود میں داخل ہونے کے لیے کیمپ سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ خاردار تاروں سے بچتے، غیر عمومی اور دشوار راستوں سے ہوتے ہوئے جب وہ مقدونیہ کی حدود میں داخل ہوئے تو مقدونیہ کی فوج ان کی منتظر تھی۔

مقدونیہ کی پولیس کے حکام کا کہنا ہے کہ سرحد عبور کرنے والے زیادہ تر تارکین وطن کو ٹرکوں میں سوار کر کے واپس یونان بھیج دیا گیا ہے۔ یونانی حکام کے مطابق وہ واپس لوٹنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کے بارے میں تصدیق نہیں کر سکتے۔

تاہم سرحد عبور کرنے کی ناکام کوشش کرنے والے تارکین وطن نے اس بارے میں تفصیلات بتائی ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ایک شامی تارک وطن کا کہنا تھا کہ سرحد عبور کرنے کے فوراﹰ بعد مقدونیہ کی فوج نے انہیں حراست میں لے لیا جس کے بعد انہیں پچیس سے پچاس افراد تک کی ٹولیوں میں تقسیم کر کے ٹرکوں میں سوار کیا اور یونان کی سرحد پر لا کر چھوڑ دیا۔ عبدو نامی شامی تارک وطن کے مطابق سرحد پر اتار کر ’انہوں نے کہا بھاگو، ہم بھاگ کھڑے ہوئے۔‘

یونان میں پھنسے ہزاروں تارکین وطن جرمنی اور دیگر ممالک تک پہنچنے کے لیے متبادل راستے تلاش کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرتے ہوئے تین افراد دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے تھے۔

تارکین وطن کو بڑے پیمانے پر واپس ترکی بھیجنے کی کوشش

یورپ میں پناہ کے متلاشیوں میں اڑتالیس ہزار پاکستانی بھی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید