1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’انٹرنیشنل امدادی اداروں میں جنسی استحصال روکنا محال ہے‘

31 جولائی 2018

برطانوی پارلیمانی کمیٹی نے کہا ہے کہ انٹرنیشنل امدادی تنظیموں میں جنسی استحصال کے سلسلے کو روکنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ کمیٹی کے مطابق یہ ادارے اپنے مرد ملازمین کے ہاتھوں خواتین ورکروں کے استحصال میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/32O0n
Ein Oxfam-Zeichen wird an einer Wand in Corail, einem Lager für Vertriebene des Erdbebens von 2010, am Stadtrand von Port-au-Prince, Haiti gesehen
تصویر: Reuters/A.Martinez Casares

برطانوی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں کے ترقیاتی شعبے کا جائزہ لینے والی کمیٹی کے سربراہ اسٹیفن ٹوِگ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی امدادی اداروں میں جنسی استحصال ایک وباء کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ یہ ادارے ایسی صورت حال کا خاتمہ کرنے کے بجائے اپنے ملازمین کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح کسی بھی استحصالی رویے کی انکوائری شفاف طریقے سے مکمل نہیں ہو پاتی۔

اس کمیٹی نے انٹرنیشنل اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی تنظیم کے ملازمین کی مزید چھان بین کرے اور ایسے افراد کے نام سامنے لائیں جو خواتین کے جنسی استحصال میں ملوث پائے گئے ہوں تا کہ ان شکاریوں کو کوئی اور ادارہ نوکری دینے سے گریز کرے کیونکہ جنسی استحصال کرنے والے اپنی عادت سے باز نہیں رہ سکتے اور وہ مسلسل ایسے افعال کا ارتکاب کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ایسے اداروں میں مجموعی تاثر یہ ہے کہ جنسی استحصال کرنے والے ملازمین کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور اس باعث اندرونِ خانہ پیچیدگیوں کا سلسلہ دراز ہونے لگا ہے۔ برطانوی پارلیمانی کمیٹی کے مطابق ڈیویلپمنٹ سیکٹر میں یہ مسئلہ انتہائی گھمبیر ہو چکا ہے اور اس کا حجم بعید از قیاس ہے۔

London Ministerin Penny Mordaunt droht Oxfam
برطانیہ کی غیرسرکاری تنظیموں کے نگران ادارے کا کہنا ہے کہ مختلف ادارے جنسی استحصال کے عمل کا مکمل صفایا کرنے پر مجبور ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/PA/N. Ansell

یہ بھی واضح کیا گیا کہ بین الاقوامی امدادی اداروں میں ملازم خواتین کے جنسی استحصال کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ برطانوی دارالعوام کی خصوصی کمیٹی کی رپورٹ رواں برس کے اوائل میں برٹش کثیرالقومی امدادی ادارے اوکسفیم میں جنسی استحصال کے الزامات کے تناظر میں ہے، جب سات ملازمین نے اپنی اپنی نوکریوں سے استعفے دے دیے تھے۔

اوکسفیم کے حوالے سے ایسے انکشافات بھی سامنے آئے تھے کہ اس ادارے کے بعض ملازمین نے کیربیین ملک ہیٹی میں سن 2010 کے زلزلے کے بعد قائم ہونے والے مقامی دفتر میں خواتین عہدوں پر جسم فروش خواتین کو ملازمتیں تک دے رکھی تھیں۔

دوسری جانب برطانیہ کی غیرسرکاری تنظیموں کے نگران ادارے انٹرنینشل ڈیویلپمنٹ نان گورنمنٹل آرگنائزیشن کی سربراہ جوڈتھ بروڈی کا کہنا ہے کہ مختلف ادارے جنسی استحصال کے عمل کا مکمل صفایا کرنے پر مجبور ہیں۔ بروڈی کے مطابق غیرسرکاری تنظیموں میں بظاہر معاملات معمول کے مطابق جاری ہیں اور ان میں یقینی طور پر تبدیلی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

بس اب بہت ہو گیا!