1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف جنگ، یورپی رہنما متحد

عاطف بلوچ18 مئی 2015

یورپی یونین کے اعلیٰ رہنما بحیرہ روم کے علاقے میں فعال انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف فوجی کارروائی کے ایک مجوزہ منصوبے کو آج حتمی شکل دے رہے ہیں۔ تاہم یہ کارروائی کیسے ہو گی، اس بارے میں کئی سوالات ابھی تک تشنہء جواب ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FRPT
گنجائش سے زیادہ افراد سے لدی متعدد کشتیاں بحیرہء روم کے پانیوں میں حادثات کا شکار بھی ہو جاتی ہیںتصویر: Reuters/Massimo Sestini/World Press Photo

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی برسلز سے موصولہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اٹھائیس ممالک پر مشتمل یورپی یونین کے وزرائے خارجہ اور دفاع آج اٹھارہ مئی بروز پیر ایک ملاقات میں اس حوالے سے ایک منصوبے کو حتمی شکل دے دیں گے۔ اس منصوبے کا مقصد سمندری راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی جانوں کے ضیاع کو روکنا ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں خستہ حال اور گنجائش سے زیادہ افراد سے لدی متعدد کشتیاں بحیرہء روم کے پانیوں میں حادثات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ رواں برس ایسے حادثات کے نتیجے میں کم ازکم اٹھارہ سو تارکین وطن لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ 2014ء کے مقابلے میں یہ تعداد بیس گنا زیادہ ہے۔

آج پیر کے دن یورپی رہنما اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مختلف منصوبوں پر غور کر رہے ہیں۔ ان میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ ایسی خالی کشتیوں کو ان کی نشاندہی ہوتے ہی عسکری کارروائی کرتے ہوئے تباہ کر دیا جائے، جن کے ذریعے انسانوں کی اسمگلنگ کی جاتی ہے۔ اس تناظر میں یورپی ممالک اپنے انٹیلی جنس آپریشنز کو بھی بہتر بنائیں گے۔

یورپی یونین کے خارجہ امور کی نگران فیڈریکا موگیرینی نے کہا ہے کہ برسلز میں آج ہونے والی اس میٹنگ میں بنیادی منصوبوں پر اتفاق رائے کے نتیجے میں آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے میں بھی مدد مل سکے گی۔ تاہم ابھی تک یورپی یونین کے اس مجوزہ مشن کے حوالے سے کئی معاملات پر متعدد سوالیہ نشان لگے ہوئے ہیں، مثال کے طور پر یہ کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس حوالے سے یورپی یونین کو کیا مینڈیٹ دیتی ہے یا پھر یہ کہ آیا لیبیا کی قیادت تعاون پر تیار ہو جائے گی، وغیرہ وغیرہ۔ تاہم موگیرینی کے بقول یورپی یونین کی طرف سے اس منصوبے پر متفق ہو جانے کے بعد سلامتی کونسل بھی اس بارے میں زیادہ تیزی اور سنجیدگی سے سوچے گی۔

Von der Leyen mit Hammond beim EU-Außen- und Verteidigungsministertreffen
برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمونڈ اور جرمن وزیر دفاع اُرزُولا فان ڈئر لائنتصویر: Reuters/F. Lenoir

ادھر لیبیا میں مغربی دنیا کی حمایت یافتہ حکومت کے لیے اقوام متحدہ کے مندوب ابراہیم الدباشی یورپی یونین کے اس منصوبے کے بارے میں شکوک کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ عسکری آپریشن کے نتیجے میں لیبیا کی خود مختاری اور سالمیت کی خلاف وزری ہو گی جبکہ کشتیوں کو تباہ کرنے کے نتیجے میں ماہی گیروں کا روزگار بھی متاثر ہو سکتا ہے، ’’یہ انتہائی مشکل کام ہے کہ ماہی گیروں اور اسمگلروں کی کشتیوں کے مابین تخصیص کی جا سکے۔ یہ مجوزہ منصوبہ ماہی گیروں کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘

یورپی یونین کے وزرائے دفاع اور خارجہ کے اجلاس سے قبل جرمن وزیر دفاع اُرزُولا فان ڈئر لائن نے برسلز میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ابھی بہت سے مشکل سوالات کے جوابات تلاش کرنا باقی ہے۔ کئی قانونی پیچیدگیاں بھی ہیں۔ فی الحال ہماری اولین ترجیح سمندری پانیوں میں حادثات کا شکار ہونے والے غیر قانونی تارکین وطن کو زندہ بچانا ہے۔‘‘