انجانے طور پر کس طرح پلاسٹک ہمارے جسم میں جا رہا ہے
پلاسٹک کے باریک ذرات یا مائیکرو پلاسٹک نہ صرف انسانی صحت بلکہ ماحول کے لیے بھی ضرر رساں ہے۔ اس کے باوجود ایسے ذرات روز مرہ کی زیر استعمال مصنوعات میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ایسی ہی چند اشیا پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
ٹوتھ پیسٹ
مائیکرو پلاسٹک حجم میں 5 ملی میٹر سے بھی کم ہوتے ہیں۔ لیکن سمندر میں جمع ہو کر یہ نہ صرف سمندری حیات کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ہوا میں بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ٹوتھ پیسٹ میں بھی انکی موجودگی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہ کس طرح ہماری زندگی کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔
فیس واش
کاسمیٹک مصنوعات کی پیکنگ سے لے کر ان میں شامل اجزا تک میں پلاسٹک موجود ہے۔ ماہرین کے مطابق روزانہ چہرہ دھونے کے لیے استعمال ہونے والے بعض فیس واش میں بھی مائیکرو پلاسٹک استعمال کی جاتی ہے۔
سمندری حیات
سن 2017 میں ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق انڈونیشیا اور کیلیفورنیا کی مارکیٹوں میں دستیاب مچھلیوں کے ٹیسٹ سے سامنے آیا کہ 25 فیصد مچھلیوں کے پیٹ میں پلاسٹک اور پلاسٹک کے مصنوعی ذرات موجود تھے۔
سمندری نمک
سن 2017 میں شائع ہونے والے کئی مطالعات کے مطابق امریکا، یورپ اور چین کے سمندری نمک میں مائیکرو پلاسٹک پایا گیا۔ اس تناظر میں یہ بات حیران کن نہیں کہ سمندر میں پایا جانے والا 60 سے 80 فیصد کباڑ پلاسٹک پر مشتمل ہوتا ہے۔
شہد
عموماﹰ اس پر اتفاق کیا جاتا ہے کہ مچھلی، جھینگے اور چند دیگر سمندری حیات میں مائیکرو پلاسٹک پائے جاتے ہیں لیکن چند سائنسدانوں کے مطابق شہد بھی اب پلاسٹک سے محفوظ نہیں۔ حالیہ یورپی پلاسٹک اسٹریٹیجی میں شہد بھی ان مصنوعات کی فہرست میں شامل ہے جس میں مائیکرو پلاسٹک پائی گئی ہے جس کے باعث مائیکرو پلاسٹک پر پابندی لگانے کی سفارشات میں تیزی آئی ہے۔
کمبل
مصنوعی ریشے دار کپڑوں کی دھلائی کے وقت بڑے پیمانے پر پلاسٹک کے انتہائی باریک ریشے اس گندے پانی میں شامل ہوجاتے ہیں جو سمندر میں گرتا ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق 5 سے 8 ملی میٹر لمبائی کے 7 لاکھ سے زائد ریشے صرف کمبلوں کی دھلائی میں ہی خارج ہو کرپانی میں شامل ہو جاتے ہیں۔
نلکے کا پانی
سائنسدانوں نے مختلف ممالک میں نلکے کے پانیوں کا معائنہ کیا تو سامنے آیا کہ 80 فیصد نمونوں میں پلاسٹک کے ذرات پائے گئے۔ امریکا کے 94 اور جرمنی اور برطانیہ میں 70 فیصد نمونے پلاسٹک کے ذرات سے آلودہ پائے گئے۔