1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انتظار حسین 90 کے ہو گئے، سالگرہ مبارک

امجد علی7 دسمبر 2013

سات دسمبر کو اردو زبان کے مایہ ناز ادیب انتظار حسین کی 90 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ وہ 1923ء میں میرٹھ کے ڈبائی بلند شہر میں پیدا ہوئے تھے۔

https://p.dw.com/p/1AUnX
تصویر: DW/R. Saeed

سن 1947ء میں پاکستان منتقل ہونے والے انتظار حسین نے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان و ادب میں بھی ایم اے کی ڈگریاں حاصل کیں۔ انہوں نے بے شمار افسانے اور ناول لکھے ہیں اور انہیں اردو ادب کی دنیا میں ایک لیجنڈ کی حیثیت حاصل ہے۔ اُنہیں اپنی تخلیقات کے لیے متعدد قومی اور بین الاقوامی اعزازات مل چکے ہیں۔ رواں سال اُن کا نام مشہورِ زمانہ ’مَین بکر انٹرنیشنل ایوارڈ’ کے لیے نامزد ادیبوں میں بھی شامل رہا۔

اس سوال کے جواب میں کہ فرانسیسی ادیب ژاں پال سارتر یا پھر روس کے الیگذانڈر زولشے نتسن کی طرح اردو زبان میں لکھنے والے ادیب سیاسی معاملات پر تبصرہ کرنے یا سیاسی عمل میں شامل ہونے سے گریز کیوں کرتے ہیں، انتظار حسین نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اردو میں ترقی پسند تحریک میں شامل سبھی شا عروں اور ادیبوں کا تو نقطہء نظر ہی یہی رہا ہے کہ سیاسی حالات و واقعات پر تبصرہ کیا جائے۔

Schriftsteller Faiz Ahmed Faiz
ترقی پسند تحریک میں سے فیض احمد فیض کا معاملہ بھی یہ تھا کہ اپنی شاعری سے ہَٹ کر سیاسی حالات و واقعات پر انہوں نے بہت ہی کم تبصرہ کیا ہےتصویر: Wikimedia

اس حوالے سے خود اُن کا اپنا نقطہء نظر کیا ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے اُنہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنے اس انٹرویو میں بتایا تھا:’’مَیں تو اُن رجعت پسندوں میں سے ہوں، جو سیاسی معاملات پر تبصرے کے زیادہ قائل نہیں ہیں۔ مَیں ایک ادیب کے لیے یہ لازم ہی نہیں سمجھتا۔ اگر مَیں تبصرہ کروں تو اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ ایک ادیب کو حتی الامکان اپنے دائرے میں رہنا چاہیے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ مَیں ایک ادیب ہوں، سیاسی مبصر نہیں ہوں۔‘‘

لیکن کیا ایک ادیب اپنی تحریروں کے ذریعے عام عوام کی رہنمائی نہیں کر سکتا، اس حوالے سے انتظار حسین نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا:’’ہمارے پاکستانی معاشرے میں لوگ ادیب سے رہنمائی کے طالب ہی نہیں ہوتے، وہ مولوی سے رہنمائی لیتے ہیں۔ فرانس جیسے ملک میں تو عام آدمی بھی یہ جانتا تھا کہ یہ سارتر ہے اور اُس کا کیا کام ہے اور یہ جو رائے دے رہا ہے، اس کی کیا اہمیت ہے۔ ہمارے معاشرے میں ادیب کی وہ حیثیت نہیں ہوتی۔ چند ایک ہوتے ہیں، جنہیں یہ مقام مل جاتا ہے، جیسے کہ علامہ اقبال کو ملا۔ ترقی پسند تحریک میں سے فیض احمد فیض اس سطح تک پہنچے ضرور لیکن ان کا معاملہ بھی یہ تھا کہ اپنی شا عری سے ہَٹ کر سیاسی حالات و واقعات پر انہوں نے بہت ہی کم تبصرہ کیا ہے۔‘‘

کیا ایک ادیب کو صرف دانشوروں کے لیے لکھنا چاہیے یا عام آدمی کے لیے، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انتظار حسین کا کہنا تھا:’’مَیں تو اپنے لیے لکھتا ہوں۔ میرے ذہن میں مثلاً ایک خیال گردش کر رہا ہے یا کوئی ایسی صورت حال ہے، جو مجھے پریشان کر رہی ہے، تو مَیں اُس بارے میں لکھتا ہوں۔ تب مجھے پتہ نہیں ہوتا کہ اس کی رِیڈر شپ کیا ہو گی، کہاں ہو گی۔ لکھنے کے بعد مَیں یہ سوچتا ہوں کہ اب اس افسانے کو کسی رسالے میں اشا عت کے لیے بھیجنا چاہیے یا کسی کتاب کا حصہ بننا چاہیے۔ مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ جب مَیں کوئی تحریر لکھوں گا تو میرے قارئین کا ایک حلقہ ہے اور اس مخصوص حلقے میں وہ تحریر پڑھی جائے گی۔ مَیں یہ توقع نہیں رکھتا کہ ملک کا ہر آدمی اُسے پڑھے گا۔‘‘

انتظار حسین کے زیادہ تر افسانوں میں علامتی اسلوب اپنایا گیا ہے۔ کیا ادیب علامتی یا تجریدی افسانے کی طرف اس لیے مائل ہوتے ہیں کہ وہ معاشرے میں سیاسی جبر کی فضا میں حقیقت بیان نہیں کر سکتے یا نہیں کرنا چاہتے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا:’’یقیناً ایسا بھی ہوتا ہے لیکن محض یہی ایک وجہ نہیں ہوتی۔ علامتی تحریریں ایسے معاشروں میں بھی لکھی گئی ہیں، جہاں اس قسم کا سیاسی جبر نہیں تھا۔ اب مثلاً پاکستان اور بھارت میں ایک ساتھ اور ایک ہی وقت میں علامتی اور تجریدی افسانہ پروان چڑھا۔ پاکستان میں تو چلو ایوب خان کا دور تھا لیکن بھارت میں ایسی صورت حال نہیں تھی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہاں علامتی افسانہ کیوں لکھا گیا بلکہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں اس اسلوب کو زیادہ فروغ حاصل ہوا۔‘‘