1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امن مذاکرات میں تعطل، پاک افغان تعلقات پر اثر انداز

فریداللہ خان، پشاور
12 فروری 2021

حال ہی میں افغان سرحد پر واقع ضلع باجوڑ میں سویلین آبادی پر راکٹ حملوں اور جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں سکیورٹی چیک پوسٹ پر حملے کے نتیجے میں مقامی رہائشیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3pHAX
Grenze Pakistan - Afghanistan
تصویر: Ullah Khan/DW

امریکا اور طالبان کے مابین امن مذاکرات میں تعطل کی وجہ سے افغانستان سمیت پاکستان میں بھی پرتشدد کارروائیو‍ں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ضلع باجوڑ میں سویلین آبادی پر حالیہ راکٹ حملوں اور جنوبی وزیرستان کےعلاقے مکین میں سکیورٹی چیک پوسٹ پر حملے نے عدم استحکام کی فضا پیدا کر دی ہے۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق جوابی کاروائی میں چار دہشت گرد بھی مارے گئے اس حملے کے بعد علاقے میں سرچ آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ دوسری جانب باجوڑ کے علاقے ماموند کے شہری آبادی پر حملے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے میں سرچ آپریشن کے دوران تخریب کاری کے لیے استعمال ہونیوالے اسلحے بڑی تعداد میں برآمد  کیے ۔ دونوں ممالک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے  ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی بات چیت کرتے ہوئے سابق وفاقی وزیر داخلہ اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ کا کہنا تھا، ''افغانستان کا مسئلہ روز بہ روز گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ تشدد میں اضافہ ہوا رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرات کا عمل جلد سے جلد شروع ہو اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو تشدد میں اضافہ ہوگا کیونکہ طالبان نے دھمکی دی ہوئی ہے کہ وہ پھر سے کاروائیاں شروع کریں گے ۔ انکا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک نادر موقع ہے کہ خطے میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات کا سلسلہ پھر سے شروع کیا جائے۔ نئے امریکی صدر کا یہ اقدام خوش آئند ہے کہ زلمے خلیل زاد کو کام جاری رکھنے کا کہا ہے۔ سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین موجود بے اعتمادی کی فضا کے خاتمے کے لیے حکومتی اورعوامی سطح پر وفود کا تبادلہ ہونا چاہیے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان موجود خلیج کو کم کیا جاسکے۔‘‘

Grenze Pakistan - Afghanistan
طورخم بارڈر پر پاکستان اور افغانستان کے مابین تجارت جاری ہے۔ تصویر: Ullah Khan/DW

حکومتی سطح پر افغان عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے  پاک افغان سرحد طورخم کو ہفتے میں چھ دن کے لیے کھلا رکھنے کے اعلان پر جمعے سے عمل درآمد شروع ہوچکا ہے ۔ اس سرحد سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں افغان علاج معالجے اور تجارت کی غرض سے پاکستان آتے ہیں۔ پشاور میں تجارت کرنے والے حاجی مجیب نے ڈوئچے ویلے کو بیان دیتے ہوئے کہا ،'' دونوں ممالک کے عوام کا ایک دوسرے کے ساتھ پیارو محبت کا رشتہ ہے ۔ افغانستان میں امن ہو تو پاکستان میں بھی امن ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان افغانستان میں امن کے قیام میں مثبت کردار ادا کررہا ہے۔ افغان حکومت کو پاکستان میں مقیم افغانوں کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ پاکستان نے نہ صرف انہیں پناہ دی ہے بلکہ لاکھوں افغان یہاں کاروبار کررہے ہیں۔ ‘‘

اپنی طرف سے حکومت پاکستان افغان باشندوں کے لیے تمام تر سہولیات فراہم کرنے کی کوشیش کررہی ہے۔ تین ملین افغان پاکستان کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں جنکا کاروبار سمیت غمی خوشی میں ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔

 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں