1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اعلیٰ امریکا عہدیدار کا دورہ پاکستان

عبدالستار، اسلام آباد
29 مارچ 2018

امریکا کی نگران نائب وزیرخارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا ایلس جی ویلزکے دورہء پاکستان سے ملک میں ایک بار پھریہ تاثر پیدا ہو رہا ہے امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئے گی۔

https://p.dw.com/p/2vDM5
Pakistan Außenministerium in Islamabad
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/I. Sajid

امریکی عہدیدار کا یہ اس برس میں دوسرا دورہ ہے۔ کچھ ماہرین اس دورے کو خالصتاﹰ پاک امریکا تعلقات اور افغانستان میں ہونے والی عسکریت پسندی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں لیکن کچھ کا خیال یہ ہے کہ روس مخالف موجودہ عالمی سیاسی ماحول میں یہ دورہ صرف افغانستان یا دوطرفہ تعلقات تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے دوسرے مقاصد بھی ہوسکتے ہیں۔

’امریکا نے کبھی پاکستان کی جمہوری حکومتوں کے ساتھ نہیں دیا‘

’جوہری کاروبار‘ سات پاکستانی کمپنیوں پر امریکی پابندی

چین دنیا میں اپنا جائز مقام حاصل کرے گا، شی جن پنگ
پاکستان کے دفترِ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق امریکی عہدیدار نے سیکریڑی خارجہ تہمینہ جنجوعہ سے ملاقات کی ، جس میں دوطرفہ تعلقا ت اور خطے کے مسائل خصوصاﹰ افغانستان پر بات چیت کی گئی۔
دونوں عہدیداروں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اشرف غنی کی امن  پیش کش کے بعد جو سازگار ماحول بنا ہے اور ازبکستان میں جو کانفرنس ہوئی ہے، اس تناظر میں اس پورے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔ اس ملاقات میں مہاجرین کی واپسی اور سرحد کی نگرانی کا طریقہ کار بھی زیرِ بحث آیا۔
پاکستان میں ماہرین اس ملاقات کو بہت دلچسپی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بین الاقوامی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کا کہنا ہے کہ امریکا پاکستان کو اس قدر دیوار سے نہیں لگانا چاہتا ہے کہ وہ مکمل طور پر روس اور چین کی طرف چلا جائے۔ ’’میرے خیال میں اس دورے کا بنیادی مقصد توافغانستان ہی ہے، جہاں امریکا چاہتا ہے کہ اسلام آباد حقانی نیٹ ورک کے خلاف یا تو ایکشن لے یا پھر طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے کر آئے لیکن موجودہ کشیدہ صورتِ حال میں یہ ممکن ہے کہ آنے والے وقتوں کے لیے وہ ورس کا خطے میں اثر ورسوخ کم کرنے کے لیے کوشش کریں اور ایسی صورت میں وہ چاہے گا کہ پاکستا ن ماسکو کی طرف نہ دیکھے۔‘‘
کراچی یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکڑ طلعت اے وزارت کے خیال میں خطے کے ممالک روس کے خلاف نہیں جائیں گے۔’’کانگریس میں بحث ہوئی ہے جہاں یہ زور دیا گیا ہے کہ پاکستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے کیونکہ اسلام آباد کے پاس جوہری ہتھیار بھی ہیں اور ہماری جغرافیائی پوزیشن بھی اہم ہے۔ امریکا کو احساس ہے کہ پاکستان کی جغرافیا ئی حیثیت سے روس اور دوسرے ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور وہ موجودہ حالات میں روس کو بالکل کوئی فائدہ پہنچانا نہیں چاہتا۔ انہیں معلوم ہے کہ روس پاکستان میں انرجی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ امریکا پاکستان کو ایک بار پھر دھوکا دے کر اپنی طرف کرنا چاہتا ہے تاکہ ہم اسی طرح معاشی طور پر اس کے دستِ نگر رہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا،’’خطے کے ممالک امریکا کے مقابلے میں روس کو ترجیح دے رہے ہیں اور اس خطے میں بھارت کے علاوہ کوئی بھی روس کے خلاف نہیں جا سکتا۔ پاکستان نے ابھی علاقائی استحکام کے حوالے سے کچھ تجاویز دی ہیں، جس کا ایران، چین اور روس سب نے خیر مقدم کیا ہے۔ خطے کے ممالک اب علاقائی تعاون چاہتے ہیں ۔ اس لیے پاکستان کسی بھی صورت روس کے خلاف نہیں جائے گا۔‘‘


معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرد امجد شعیب نے اس دورے کے حوالے سے کہا، ’’اس دورے کا ایک مقصد یہ ہے کہ روس کے اثر و رسوخ کو خطے میں کم کیا جائے اور دوسرا یہ ہے کہ پاکستان کو جھوٹے وعدوں سے بہلا یاجائے۔ آپ نے دیکھا کہ افغانستان کے امن کے حوالے سے روس لیڈ رول لے رہا ہے۔ خطے کے ممالک اس کو سن رہے ہیں۔ یہ موجودہ حالات میں امریکا کو پسند نہیں ۔ اس لیے وہ پاکستان کو ایک بار پھر جھوٹے وعدے کر کے خطے میں استحکام کے لیے کام کرنے سے روکنا چاہتا ہے لیکن خطے کے ممالک کو لگتا ہے کہ امریکا افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے نہیں بیٹھا بلکہ اس کے مقصد کچھ اور ہیں۔ اس لیے خطے کے تمام ممالک چاہتے ہیں کہ امریکہ یہاں سے جائے۔‘‘