1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی سفارتکاروں کو جواباً بیدخل نہیں کریں گے، روسی صدر

عابد حسین
30 دسمبر 2016

روسی صدر نے امریکی سفارتکاروں کی فوری طور پر جوابی بیدخلی کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ پوٹن کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد اگلے اقدامات کا فیصلہ کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/2V3vH
Wladimir Putin Russland Moskau
تصویر: picture alliance/dpa

روسی نیوز ایجنسی آر آئی اے نے ملکی صدر کے حوالے سے بتایا ہے کہ انہوں نے امریکا کی جانب سے تین درجن کے قریب روسی سفارتکاروں کی بیدخلی کے جواب میں فوری طور پر کسی قسم کی کارروائی  سے انکار کردیا ہے۔ ایجنسی کے مطابق روسی صدر کا خیال ہے کہ اس ضمن میں کوئی بھی اگلا قدم منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد اٹھایا جائے گا۔

امریکی اقدام کے جواب میں روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے اپنے صدر کو تجویز پیش کی تھی کہ وہ بھی پینتیس امریکی سفارتکاروں کی بیدخلی کی تجویز کو منظور کریں تا کہ ادلے بدلےکی کارروائی شروع کی جا سکے۔ لاوروف نے یہ بھی تجویز کیا تھا کہ امریکی سفارتی عملے کو ماسکو میں دو سہولیات کے استعمال کی بھی ممانعت ہونی چاہیے۔

Russland US Botschaft in Moskau
ماسکو میں امریکی سفارتخانے کی عمارتتصویر: picture alliance/dpa/Y. Kochetkov

صدر ولادیمیر پوٹن نے اپنے وزیر خارجہ کی تجویز سے اتفاق نہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ کسی امریکی سفارتی اہلکار کو ماسکو سے بیدخل نہیں کیا جائے گا۔ پوٹن نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ روس اور امریکا کے دوطرفہ تعلقات کو مزید خراب کرنے کی یہ ایک اور کوشش ہے۔ اُن کے مطابق اوباماحکومت اپنا دور اقتدار کسی اچھے نکتے پر ختم نہیں کر رہی۔

 روسی وزیراعظم دیمتری میدویدیف کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ اپنے اختتامی ایام میں روس کی مخالفت کے شدید کرب میں مبتلا ہے۔ میدویدیف کا مزید کہنا تھا کہ یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ اوباما نے اپنی حکومت روس کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے سے شروع کی اور اب رخصت ہوتے وقت وہ مخالفت میں حد سے آگے نکل گئے ہیں۔

امریکی صدر نے پینتیس روسی سفارتی عملے کو جاسوسی کے شبے میں بیدخل کرنے کا حکم دیا ہے۔ روسی سفارتی عملے کو امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت اور جاسوسی کے شبے میں بیدخل کیا گیا ہے۔ دوسری جانب ماسکو میں روسی سفارتی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اوباما کا یہ فیصلہ کمزور بہانہ سازی کا نتیجہ ہے اور ٹرمپ صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد اِس فیصلے کو تبدیل کر سکتے ہیں۔