1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ کے ساتھ کشیدگی کے درمیان چینی صدر کا دورہ سعودی عرب

6 دسمبر 2022

اطلاعات کے مطابق چینی صدر رواں ہفتے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچ رہے ہیں۔ شی جن پنگ وہاں چین عرب سربراہی کانفرنس میں حصہ لیں گے جس میں 14عرب ملکوں کے سربراہوں کی شرکت بھی متوقع ہے۔

https://p.dw.com/p/4KWAL
China I Kronprinz Mohammed bin Salman in Peking
تصویر: Bandar Algaloud/AA/picture alliance

امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے مابین جاری کشیدگی کے درمیان ہی چین کے صدر شی جن پنگ جمعرات کے روز دو روزہ سرکاری دورے پر سعودی دارالحکومت ریاض پہنچ رہے ہیں۔ ان کے اس دورے کے دوران ہی وہاں چین اور خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کا اجلاس بھی ہوگا۔

چینی صدر کے مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے سب سے بڑے حلیف سعودی عرب کے ممکنہ دورے کی باتیں پچھلے کئی مہینوں سے گردش کر رہی ہیں۔ تاہم سعودی عرب اور چین دونوں حکومتوں نے اب تک اس کی باضابطہ تصدیق نہیں کی ہے۔

’خلیجی ممالک میں دوبارہ سیاسی تعاون کا عمل شروع‘

سعودی حکومت نے مجوزہ سمٹ کی رپورٹنگ کے لیے نامہ نگاروں کو گزشتہ ہفتے رجسٹریشن فارم بھیجے تھے لیکن اس میں کانفرنس کی تاریخ درج نہیں تھی۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے بھی شی جن پنگ کے مجوزہ دورے کی تصدیق کی ہے۔ تاہم کہا کہ چینی صدر کے دورے اور اس کے ایجنڈے کے متعلق ان کے سوالات کا سعودی حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔

شی جن پنگ کا دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کشیدہ ہیں، عالمی توانائی مارکیٹ میں غیر یقینی کی صورت حال ہے اور واشنگٹن مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات سے خاصا فکرمند ہے۔

بائیڈن کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان صحافی جمال خاشقجی کی موت کے لیے ذمہ دار ہیں
بائیڈن کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان صحافی جمال خاشقجی کی موت کے لیے ذمہ دار ہیںتصویر: SAUDI ROYAL COURT/REUTERS

سعودی عرب اورامریکہ کے مابین بڑھتی دوریاں

امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تیل کی پیداوار کے معاملے پر اکتوبر میں اس وقت کافی گرما گرمی پیدا ہو گئی تھی جب سعودی قیادت میں تیل پیداکرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک نے قیمتوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کے تحت تیل کی پیداوار میں یومیہ 20 لاکھ بیرل کی کمی کردی تھی۔ یہ فیصلہ امریکہ کی جانب سے سخت اعتراض کے باوجود کیا گیا تھا۔

اوپیک کی پیداوار: بائیڈن کی سعودی عرب کو سخت نتائج کی دھمکی

جولائی میں سعودی عرب کے اپنے دورے کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات میں صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا معاملہ اٹھایا تھا۔ بائیڈن کے مطابق سعودی رہنما سعودی نژاد امریکی صحافی کی موت کے لیے ذمہ دار ہیں۔

دوسری طرف محمد بن سلمان نے ایک میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کو ان کے متعلق جو غلط فہمیاں ہیں انہیں اس کی پرواہ نہیں اور بائیڈن کو امریکہ کے مفادات پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے معاملات اور یمن کی جنگ جیسے امور پر بھی امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔

سعودی عرب اب بھی بیجنگ کو تیل سپلائی کرنے میں سر فہرست ہے
سعودی عرب اب بھی بیجنگ کو تیل سپلائی کرنے میں سر فہرست ہےتصویر: picture-alliance/Xinhua/Wang Bo

سعودی عرب اور چین کے بڑھتے تعلقات

سعودی عرب چین کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کر رہا ہے۔ گوکہ روس کم قیمت کی وجہ سے چین کو پہلے کے مقابلے زیادہ مقدارمیں تیل سپلائی کر رہا ہے تاہم سعودی عرب اب بھی بیجنگ کو تیل سپلائی کرنے میں سر فہرست ہے۔

بیجنگ تجارت کے لیے  امریکی ڈالر کی جگہ اپنی کرنسی یوان کے استعمال کے لیے بھی کوشش کر رہا ہے۔ ریاض واشنگٹن کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے مدنظر ڈالر کے بجائے دوسری کرنسی میں تیل کی تجارت کرنے کی دھمکی دے چکا ہے۔

روئٹرز کے مطابق سعودی عرب میں تعینات سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ کے اعزاز میں اسی طرح کا شاندار استقبالیہ دیا جائے گا جیسا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو سن 2017 میں ریاض کے دورے کے دوران دیا گیا تھا۔خاشقجی کے قتل کے باوجود سعودی عرب کے حلیف ہیں، ٹرمپ

خاشقجی کے قتل کے باوجود سعودی عرب کے حلیف ہیں، ٹرمپ

سفارت کاروں کے مطابق اس دورے کے دوران چین اور سعودی عرب کے مابین کئی درجن معاہدوں پر دستخط ہونے کی توقع ہے۔

امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل میں سینیئر فیلو جوناتھن فلٹن کا خیال ہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ سعودی عرب بہت سی عالمی طاقتوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اور وہ غالباً امریکہ کو بھی یہی اشارہ دے رہے ہیں۔

 واشنگٹن کے مرکز برائے اسٹریٹیجک اور بین الاقوامی مطالعات میں مشرق وسطیٰ پروگرام کے ڈائریکٹر جون الٹرمین کا تاہم کہنا تھا کہ حالانکہ امریکہ کے مقابلے میں چین کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات بظاہر بڑی تیزی کے ساتھ کافی بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں لیکن حقیقی تعلقات کے لحاظ سے اس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔

 ج ا/ ص ز (روئٹرز، ایجنسیاں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں