1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ جرمن تعلقات پر ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

4 نومبر 2009

معاشی طور پر ابتر حالات میں اور ایک ایسے وقت میں، جب مسلمان انتہا پسندوں کے ساتھ جنگ لڑی جا رہی ہے، امریکہ کو با اعتماد حلیفوں کی ضرورت ہے۔ واشنگٹن کو ڈرہے کہ دوست ممالک امریکہ کو تنہا چھوڑ دیں گے

https://p.dw.com/p/KMqh
تصویر: AP

باراک اوباما کے دَورِ صدارت میں امریکہ منقسم ہے۔ ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز کا ایک دوسرے کی جانب رویہ اتنا غیر مفاہمانہ ہے کہ جس کی گذرے بیس برسوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اِس تقسیم کو کوئی اور موضوع اس قدر نمایاں نہیں کرتا، جتنا کہ امریکہ بھر میں ہیلتھ انشورنس رائج کرنے کے لئے اوباما کی کوششیں۔

تاہم اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں یا پھر افغانستان میں آئندہ حکمتِ عملی کے حوالے سے بھی کانگریس اراکین کے ہاں عدم اتفاق، بے یقینی، حتیٰ کہ جزوی طور پر جھگڑے کی کیفیت بھی نظر آ رہی ہے۔ کسی سمجھوتے پر پہنچنا دونوں ہی فریقوں کے لئے بے حد مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ شاید اِس لئے بھی کہ ری پبلکنز ابھی تک صدارتی انتخابات میں اپنی شکست کو تسلیم نہیں کر پائے ہیں۔

Belgien NATO Hauptquartier in Brüssel Flaggen
واشنگٹن میں یہ خدشہ موجود ہے کہ بین لاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دوست ممالک امریکہ کو تنہا چھوڑ دیں گے۔تصویر: AP

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا موجودہ دَورہ سیاسی تنازعات کی اِسی فضا میں عمل میں آیا ہے۔ مسز میرکل کوکانگریس کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کی دعوت اِس بات کا قوی اظہار ہے کہ ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز دونوں ہی اُن کو قدر اور احترام سے دیکھتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں، جب جرمنی دیوارِ برلن کے انہدام کا بیس سالہ جشن منانے جا رہا ہے، میرکل واشنگٹن میں بہت سے امریکی سیاستدانوں کی نظر میں امیریکن ڈریم یعنی پستیوں سے اُٹھ کر بلندیوں تک جانے کے خواب کی نمائندگی کرتی ہیں۔

وہ ایک ایسی خاتون ہیں، جن کا تعلق کمیونسٹ مشرقی جرمنی سے ہے، جنہوں نے تاریخی تبدیلیاں دیکھیں بلکہ اُن میں خود بھی عملی کردار ادا کیا، یہاں تک کہ وہ ایک جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حکومت کی سربراہ بنیں۔

معاشی طور پر ابتر حالات میں اور ایک ایسے وقت میں، جب مسلمان انتہا پسندوں کے ساتھ جنگ لڑی جا رہی ہے، امریکہ کو با اعتماد حلیفوں کی ضرورت ہے۔ مزید چھ ماہ بعد افغانستان تنازعہ اُس کسی بھی مسلح تنازعے یا جنگ سے زیادہ طویل دورانیے کا ہو جائے گا، جس میں اب تک امریکہ ملوث رہا ہے۔

واشنگٹن میں یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ بین ا لاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دوست ممالک امریکہ کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ صرف کانگریس اراکین ہی نہیں ہیں، جنہیں یہ ڈر ہے کہ اتنی زیادہ قربانیوں کے بعد بھی امریکہ کہیں افغانستان جنگ ہار نہ جائے۔

یہی وجہ ہے کہ امریکی بار بار اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسلام پسندوں کے ساتھ تصادم محض امریکیوں کا ذاتی معاملہ نہیں ہے۔ صدر اوباما کی کوشش ہے کہ دیگر ممالک، بالخصوص یورپ میں نیٹو کے ساتھی رکن ممالک زیادہ ذمہ داریاں سنبھالیں۔ لیکن یورپ میں امریکہ کو ملنے والی حمایت کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔

Merkel vor dem Kongress in Washington
جرمن چانلسر کے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کا منظرتصویر: AP

امکان غالب ہے کہ برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن عنقریب منعقدہ انتخابات میں ہار جائیں گے۔ اوباما پوری طرح سے تکیہ فرانسیسی صدر پر بھی نہیں کر سکتے۔ امریکہ میں نکولا سارکوزی کو متلون مزاج تصور کیا جاتا ہے۔ اٹلی کے وزیر اعظم اپنی نجی زندگی کے باعث شہ سُرخیوں میں رہتے ہیں۔ ایسے میں یہ بات باعثِ تعجب نہیں کہ جرمن چانسلر کو خاص طور پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔

انگیلا میرکل محض دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہی اوباما کے ساتھ تعاون نہیں کر رہیں۔ دونوں مل کر مالیاتی منڈیوں میں اصلاحات کے عمل کو بھی آگے بڑھا رہے ہیں اور گروپ جی ٹونٹی کو ایک اہم تنظیم بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ اُن کی کوشش ہے کہ عالمی معیشت کے استحکام کی ذمہ داریاں زیادہ سے زیادہ ممالک مل کر سنبھالیں۔

یہی بات ماحول سے متعلق پالیسیوں کے حوالے سے بھی کہی جا سکتی ہے۔ چانسلر کی کوشش ہے کہ ٹھوس نتائج کے حصول کے لئے جہاں جہاں ممکن ہو، امریکہ کو بھی ساتھ لے کر چلا جائے۔ سابق امریکی صدر جورج ڈبلیو بُش بین الاقوامی سطح پر اتفاقِ رائے سے طے کی جانے والی کسی ماحولیاتی حکمتِ عملی کے بارے میں سننا بھی گوارا نہیں کرتے تھے، اُنہوں نے زیادہ تر ٹال مٹول سے کام لینے کی کوشش کی۔ اِس معاملے میں اوباما اپنے پیشرو سے بالکل مختلف ہیں اور امریکہ میں توانائی کے متبادل ذرائع کی ترویج کے لئے بھی بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔

ان کوششوں کے لئے میرکل، جو کہ ماہرِ طبیعیات بھی ہیں، اوباما کو بے حد سراہ رہی ہیں۔ کانگریس کے بھی زیادہ سے زیادہ اراکین اب یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ زمینی درجہء حرارت میں اضافے کے خلاف جنگ کو محض بجٹ پر ایک بوجھ کے طور پر ہی نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ ایک ایسے امکان کے طور پر بھی، جس کے نتیجے میں ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔

تبصرہ :میودراک زورِچ / امجد علی

ادارت : شادی خان سیف