1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ: اپنے ہی شہریوں کی طرف سے درپیش خطرات

7 جنوری 2010

ممبئی حملوں کا ایک مبینہ سرغنہ اور فورٹ ہُڈ کا حملہ آور اُن امریکی شہریوں کی محض دو مثالیں ہیں، جنہوں نے انتہا پسندی کا راستہ اختیار کیا اور جو القاعدہ کے ساتھ قریبی رابطے میں تھے۔

https://p.dw.com/p/LNoz
26 نومبر دو ہزار آٹھ : ممبئی حملےتصویر: AP

مائیکل چَرٹَوف وطن کے تحفظ کی امریکی وَزارت کے سابقہ سربراہ ہیں۔ وہ انتباہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’ہمیں اپنی توجہ ایک نئے خطرے پر مرکوز کرنا ہو گی۔ اُس خطرے پر مرکوز کرنا ہو گی، جو ہماری اپنی سرزمین سے جنم لے رہا ہے۔ یہ ہے، دہشت گردوں کی ایک نئی نسل، جس کے پاس امریکی پاسپورٹ ہے۔‘‘

مائیکل چَرٹوف کا اشارہ دُنیا بھر اور امریکہ میں کئے جانے والے اُن دہشت پسندانہ حملوں کی طرف ہے، جن میں امریکی شہریوں کا ہاتھ تھا۔ یہ ایک نیا رُجحان ہے، جو اوباما حکومت کے لئے تشویش کا باعث بن رہا ہے۔

Michael Chertoff Heimatschutzminister USA
امریکی ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سابق سربراہ مائیکل چَرٹوفتصویر: AP

ٹیلی وژن چینل سی بی ایس کے مطابق گویا ’’خطرے کا الارم‘‘ بج رہا ہے۔ امریکی شہریت رکھنے والے انتہا پسند مسلمان گزشتہ ایک برس سے امریکہ اور دُنیا بھر میں دہشت پسندانہ حملوں کے حوالے سے خبروں کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ ایک مثال پاکستانی نژاد ڈیوڈ کول مَین ہیڈلی کی ہے، جو امریکی وفاقی پولیس ایف بی آئی کی تحقیقات کے مطابق بھارتی اقتصادی مرکز ممبئی پر نومبر دو ہزار آٹھ میں ہونے والے اُن حملوں میں ملوث ہے، جن میں مرنے والے ایک سو سے کہیں زیادہ انسانوں میں چھ امریکی شہری بھی شامل تھے۔

امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ہیڈلی نے تسلیم کیا ہے کہ شکاگو میں رہتے ہوئے اُس نے ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ہیڈلی نے اِلی نَوئے کی ایک جیل میں ایف بی آئی کے تفتیشی حکام کے سامنے سارے انکشافات کئے ہیں۔ غالباً ہیڈلی شکاگو میں رہتے ہوئے انٹرنیٹ کی وساطت سے گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں القاعدہ کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے عناصر سے رابطے میں تھا۔ اُس نے پانچ بار ممبئی جا کر قیام کیا اور دہشت پسندانہ حملوں کے ممکنہ اہداف کے طور پر مختلف لگژری ہوٹلوں کے بارے میں معلومات جمع کیں۔ بتایا جاتا ہے کہ شکاگو واپس جاتے ہوئے اُس نے پاکستان میں رُک کر ممبئی کی مختلف تصاویر اور فلمیں متعلقہ افراد کے حوالے کیں تاکہ اِس بھارتی شہر پر حملوں کی مزید منصوبہ بندی کی جا سکے۔

Amoklauf auf Militärbasis Ford Hood USA
امریکی میجر ندال ملک حسنتصویر: AP

ایک اور مثال امریکہ ہی پیدا ہونے والے ندال ملک حسن کی ہے، جو امریکی فوج میں میجر تھا۔ اُس کے بھی انٹرنیٹ پر ہی یمن کے ایک کٹر مسلمان مبلغ کے ساتھ رابطے تھے۔ اُسے ایک امریکی فوجی عدالت کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا کیونکہ اُس نے امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے فورٹ ہُڈ میں فائرنگ کر کے تیرہ افراد کو ہلاک اور تیس کو جزوی طور پر شدید زخمی کر دیا۔ حسن کے متعدد بیانات اِس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ مسلم ملکوں افغانستان اور عراق میں امریکی جنگوں نے فوج میں ماہرِ نفسیات کے طور پر کام کرنے والے اِس شخص کے دل میں امریکہ کے خلاف بے انتہا نفرت بھر دی تھی۔

Moschee in Dearborn USA
ریاست مِشیگن کے شہر ڈیئربورن میں امریکہ کی سب سے بڑی اور مہنگی ترین مسجدتصویر: picture-alliance/ dpa

اپنے ہی وطن کے خلاف جہاد ریاست وِرجینیا کے وہ پانچ امریکی نوجوان بھی کرنا چاہتے تھے، جو اچانک پاکستان پہنچ گئے۔ اِس سے پہلے اُنہوں نے الوداعی ویڈیو پیغامات بھی چھوڑے تھے۔ وِرجینیا کی مسلم کمیونٹی کے امام اَبکیر نے یہ پیغامات دیکھنے کے بعد کہا:’’اِس ویڈیو نے مجھے بے انتہا پریشان کر دیا ہے۔‘‘

اِس امام کو سب سے زیادہ تشویش اِس بات پر ہے کہ زیادہ سے زیادہ امریکی مسلمان انٹرنیٹ پر القاعدہ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور پاکستان اور افغانستان سے کئے جانے والے نفرت انگیز پراپیگنڈے سے متاثر ہو رہے ہیں۔امریکی نیشنل ریڈیو این پی آر پر اِس امام نے امریکی سیکیورٹی اداروں پر زور دیا کہ وہ اُن انتہا پسند اسلامی وَیب سائٹس کو اور زیادہ سختی سے کنٹرول کریں، جو نوجوان امریکیوں کے مطالعے میں آتی ہیں۔ تاہم اِس امام کے مطابق سب سے زیادہ خود مسلم کمیونٹیز کو دیکھنا چاہیے کہ اُن کی مساجد میں کیا ہو رہا ہے۔

رپورٹ: رالف زِینا (واشنگٹن) / امجد علی

ادارت: مقبول ملک