1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا کے ساتھ امن مذاکرات کا تازہ دور آج سے شروع، طالبان

1 مئی 2019

طالبان نے کہا ہے کہ افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد کے ساتھ امن مذاکرات کے نئے دور کا آغاز آج بدھ کے روز سے دوحہ میں ہو رہا ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کا سیاسی دفتر قائم ہے۔

https://p.dw.com/p/3HkkQ
Katar Friedensgespräche für Afghanistan
تصویر: picture-alliance/AP/Qatar Ministry of Foreign Affairs

افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد کو افغانستان میں گزشتہ 17 برس سے جاری جنگ کا پر امن حل تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ امریکا کی کسی دوسرے ملک میں اب تک کی طویل ترین فوجی مہم ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو آج بدھ یکم مئی کو بتایا کہ یہ مذاکرات گزشتہ برس زلمے خیل زاد کو امریکی نمائندہ خصوصی مقرر کیے جانے کے بعد سے ان کے ساتھ براہ راست بات چیت کا چھٹا دور ہیں۔ مجاہد کے مطابق ان مذاکرات میں خاص طور پر افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی اور طالبان کی طرف سے اس بات کی گارنٹی دیے جانے پر توجہ رہے گی کہ امریکی افواج کی واپسی کے بعد افغان سرزمین کو عالمی سطح پر دہشت گردی کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر نہیں استعمال کیا جائے گا۔ خلیل زاد قبل ازیں یہ کہہ چکے ہیں کہ اس بارے میں ایک ابتدائی معاہدے کا ڈرافٹ تیار کیا جا چکا ہے۔

Afghanistan | Zalmay Khalilzad
افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد کو افغانستان میں گزشتہ 17 برس سے جاری جنگ کا پر امن حل تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Maqbool

زلمے خلیل زاد جو منگل 30 اپریل کو اسلام آباد میں تھے، علاقے کے مختلف ممالک کے دورے پر تھے جس کا مقصد افغان حکومت اور اس کے ہمسایوں کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کے ایک پر امن حل پر سب کو متفق کیا جا سکے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق خلیل زاد اس ملاقات میں امریکی نمائندوں کی اس ٹیم کی سربراہی کر رہے ہیں جو گزشتہ برس اکتوبر سے اب تک طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے کئی ادوار میں شریک رہے ہیں۔

Symbolbild Taliban
طالبان اب تک افغان حکومت سے براہ راست بات چیت سے گریزاں ہیں کیونکہ وہ افغان حکومت کو ایک کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔تصویر: Getty Images/AFP/A. Karimi

خلیل زاد کے ساتھ کام کرنے والے ایک اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ مذاکرات کے تازہ دور میں طالبان کو ایک بار پھر اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ ہو جائیں۔ طالبان اب تک افغان حکومت سے براہ راست بات چیت سے گریزاں ہیں کیونکہ وہ افغان حکومت کو ایک کٹھ پتلی قرار دیتے ہیں۔

ا ب ا / ع س (ایسوسی ایٹڈ پریس، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید