1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا کا شمالی کوریا کے ساتھ ’عملی سفارت کاری‘ کا فیصلہ

1 مئی 2021

امریکی صدر جو بائیڈن  شمالی کوریا کے ساتھ ’بڑی سودے بازی‘ کی حکمت عملی کے بجائے پیونگ یانگ کے جوہری پروگرام سے متعلق ’حقیقت پسندانہ رویہ‘ اپنانے اور ’عملی سفارت کاری‘ کو ترجیح دیں گے۔

https://p.dw.com/p/3spRw
TABLEAU | 100 Tage Biden
تصویر: Brendan Smialowski/AFP

وائٹ ہاؤس نے 30 اپریل جمعے کی شام کہا کہ صدر جو بائیڈن شمالی کوریا کے جوہری پروگرام سے متعلق ایک ایسے ’نپے تلے عملی رویے کے حق میں ہیں جس میں کھلا پن ہو اور اس کے لیے وہ سفارت کاری کا راستہ‘ تلاش کریں گے۔

صدر بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی وائٹ ہاؤس نے شمالی کوریا سے متعلق اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینا شروع کر دیا تھا۔ یہ نیا بیان اس جائزے کی تکمیل کے بعد جاری کیا گيا۔ صدر بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران شمالی کوریا سے متعلق اپنے پیش رو صدر ٹرمپ سے مختلف پالیسی اپنانے کا وعدہ کیا تھا۔

صدر بائیڈن کی پریس سیکرٹری جَین ساکی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا، ’’ہمارا بھی ہدف جزیرہ نما کوریا کو مکمل طور پر جوہری ہتھیاروں سے پاک رکھنا ہے۔‘‘

’بہت بڑے عزائم‘ ترک کر دینے کا فیصلہ

ابھی یہ واضح نہیں کہ امریکا شمالی کوریا کے ساتھ کس طرح کی سفارت کاری کا راستہ اپنانا چاہتا ہے تاہم جَین ساکی کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ امریکا نے واشنگٹن میں ملک کی سابق انتظامیہ سے کئی سبق سیکھے ہیں۔

جَین ساکی کا کہنا تھا کہ واشنگٹن ’کسی گرینڈ سودے بازی کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے پر توجہ نہیں دے گا‘۔ اس بات سے ان کا اشارہ بظاہر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس پالیسی کی جانب تھا جس میں انہوں نے شمالی کوریائی رہنما کم جونگ ان سے ملاقات کے بعد ایک ’بڑا معاہدہ‘ کرنے کا ذکر کیا تھا۔

جَین ساکی کا تاہم کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس باراک اوباما کے دور کے ’اسٹریٹیجک صبر‘ کے نتیجے میں مزید کشیدگی کا باعث بننے والے حالات سے بھی گریز کرے گا۔

بائیڈن سے قبل امریکی پالیسی کیا تھی؟

صدر ٹرمپ اپنی خارجہ پالیسی کی میراث کو مستحکم کرنے کے لیے شمالی کوریا کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے کی کوشش میں تھے اور اسی لیے وہ پیونگ یانگ کی طرف سے میزائل تجربات کو نظر انداز بھی کر دیتے تھے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ ان کے مابین دو بار ملاقات بھی ہوئی تھی۔ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے لیڈر سے دوستی کی کاوشیں بھی کیں تاہم اس کے باوجود وہ کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے تھے۔

آخری بار دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت اکتوبر 2019 میں سویڈن میں  ہوئی تھی۔ تاہم شمالی کوریائی نمائندے امریکی پابندیوں پر مایوسی کی وجہ سے امریکی سفارت کاروں کے ساتھ بات چیت کے دوران ہی مذاکرات کی میز سے اٹھ کر چلے گئے تھے۔

اس کے برعکس صدر اوباما کی پالیسی کے بیک وقت دو پہلو تھے۔ وہ اچھی پیش رفت کے لیے بات چیت کے تمام دروازے کھلے رکھنے کے حق میں تھے مگر ساتھ ہی شمالی کوریا کے برے رویے پر اس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے بھی حامی تھے۔

اس کے برعکس صدر بائیڈن اس معاملے میں کم جونگ ان سے براہ راست تعلقات بڑھانے کے بجائے جاپان اور جنوبی کوریا جیسے امریکی اتحادیوں سے زیادہ سے زیادہ صلاح و مشورہ کرنے کے حق میں ہیں۔ جنوبی کوریائی صدر مون جے ان اسی ماہ امریکا کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے جو بائیڈن پر جوہری امور سے متعلق شمالی کوریا کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے پر بھی زور دیا تھا۔

ص ز / م م (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

جب شمالی کوریا کے فوجی نے بھاگنے کی کوشش کی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں