1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا نے بھارت کے لیے ترجیحی تجارتی حیثیت ختم کر دی

1 جون 2019

امریکا نے بھارت کے لیے دو طرفہ تجارت میں نئی دہلی کو حاصل ترجیحی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ بھارت نے ٹرمپ انتطامیہ کے اس فیصلے کو ’افسوس ناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے قومی مفادات پیش نظر رکھے گا۔

https://p.dw.com/p/3JbGT
بھارتی وزیر اعظم مودی جون دو ہزار سترہ میں وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کو گلے ملتے ہوئےتصویر: Reuters/K. Lamarque

ہفتہ یکم  جون کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن اور بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے ملنے والی جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ اکتیس مئی کو اعلان کیا کہ  واشنگٹن جلد ہی دنیا میں آبادی کے لحاظ سے اس دوسرے سب سے بڑے ملک کو دی گئی ترجیحی تجارتی حیثیت ختم کر دے گا اور اگلے ہفتے سے بھارت کا شمار خصوصی تجارتی حیثیت سے فائدہ اٹھانے والے ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر نہیں کیا جائے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''اب اس فیصلے کے لیے وقت مناسب ہے کہ بھارت کو اس ترجیحی تجارتی حیثیت سے مستفید ہونے والا ترقی پذیر ملک نہ سمجھا جائے۔ یہ فیصلہ پانچ جون 2019ء سے مؤثر ہو جائے گا۔‘‘

اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے چار مارچ کو اس بارے میں بھارت اور امریکی کانگریس کو باقاعدہ طور پر مطلع بھی کر دیا تھا کہ نئی دہلی کو امریکا کے عمومی نظام ترجیحات یا 'جنرلائزڈ سسٹم آف پریفرنسز‘ (GSP) سے خارج کر دیا جائے گا۔

ایسی کسی حیثیت کے خاتمے کے لیے عام طور پر دو ماہ کا نوٹس درکار ہوتا ہے اور ٹرمپ انتظامیہ نے اب جو فیصلہ کیا ہے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وائٹ ہاؤس نے اس کے لیے خاص طور پر بھارت میں قومی پارلیمان کے طویل انتخابی عمل کے خاتمے کا انتظار کیا۔ اب جب کہ ان انتخابات کے نتیجے میں وزیر اعظم نریندر مودی ایک بار پھر سربراہ حکومت بن چکے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اس فیصلے پر عمل درآمد کے اعلان میں کوئی تاخیر نہ کی۔

امریکی صدر کے اس اعلان کے بعد آج ہفتہ یکم جون کو نئی دہلی میں بھارتی وزارت تجارت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''امریکا کے ساتھ اپنے دوطرفہ تجارتی مذاکرات میں بھارت نے واشنگٹن کو یہ پیشکش کر دی ہے کہ وہ اہم معاملات میں باہمی اختلاف رائے ختم کرنے پر تیار ہے، تاکہ ان معاملات کا دونوں ممالک کے لیے کوئی قابل قبول حل نکالا جا سکے۔‘‘

ساتھ ہی بھارتی وزارت تجارت نے اپنے اس بیان میں یہ بھی کہا، ''بھارت امریکا اور دیگر تمام ممالک کی طرح ایسے تجارتی معاملات میں اپنے قومی مفادات کو ہمیشہ پیش نظر رکھے گا، لیکن ساتھ ہی نئی دہلی اس بارے میں واشنگٹن کے ساتھ بات چیت پر بھی تیار ہے۔‘‘

ڈی پی اے کے مطابق بھارت اب اس بات پر بھی غور کر رہا ہے کہ وہ امریکا سے درآمد کی جانے والی بیس سے زائد مصنوعات پر درآمدی محصولات بڑھا دے۔

 

جی ایس پی ہے کیا؟

امریکی حکومت نے اپنا جی ایس پی نامی پروگرام 1976ء میں شروع کیا تھا۔ اس کا مقصد ترقی پذیر ممالک میں اقتصادی ترقی کی رفتار میں اضافے میں مدد دینا تھا۔ اسی لیے اس پروگرام کے تحت دوطرفہ تجارت میں ترجیحی حیثیت کی وجہ سے بھارت کو اب تک بہت زیادہ مالی فائدہ ہو رہا تھا۔

اس پروگرام کے تحت امریکا اپنے ہاں جی ایس پی میں شامل کردہ ممالک سے 2000 سے زائد ایسی صنعتی اور ٹیکسٹائل مصنوعات درآمد کرتا ہے، جن پر کوئی درآمدی ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا۔

مودی حکومت کے لیے دھچکا

ڈی پی اے نے اس بارے میں اپنے ایک تفصیلی جائزے میں لکھا ہے کہ امریکا کا بھارت کے حوالے سے یہ نیا تجارتی فیصلہ نریندر مودی کی اس نئی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے، جسے پہلے ہی اس جنوبی ایشیائی ملک میں اقتصادی ترقی کی کم ہوتی ہوئی شرح اور روز گار کے مواقع سمیت کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔

نقصان بھارت کا

عالمی ادارہ تجارت (ڈبلیو ٹی او) میں بھارت کے ایک سابق سفیر جیانت داس گپتا نے اس بارے میں اپنے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے بھارت کے لیے اس ترجیحی تجارتی حیثیت کے خاتمے کے بعد نقصان بھارت کا ہی ہو گا۔

داس گپتا نے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکا کے اس اقدام سے بھارت میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے صنعتی اداروں کی برآمدات متاثر ہوں گی۔

م م / ع ت / ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں