1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا حوثیوں کو دہشتگردی کی فہرست سے ہٹائے: عالمی تنظیمیں

25 جنوری 2021

یمن میں کام کرنے والی بیس سے زائد بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے امریکا سے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے حوثی باغیوں پر دہشت گردی کا جو لیبل لگایا ہے اسے فوراً واپس لیا جائے۔

https://p.dw.com/p/3oMPG
Konflikte und humanitäre Krise im Jemen
تصویر: Mohammed Hamoud/AA/picture alliance

جنگ زدہ ملک یمن میں کام کرنے والی بائیس امدادای تنظیموں نے اتوار 24 جنوری کو ایک مشترکہ اپیل میں کہا کہ امریکا کو چاہیے کہ اس نے حال ہی میں حوثی باغیوں کو جو غیرملکی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا اسے وہ فوری طور پر منسوخ کر دے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکی فیصلے کی وجہ سے لاکھوں افراد کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔

سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے یمن کے حوثی باغیوں کو غیر ملکی دہشت گرد گروپ قرار دینے کا اعلان کیا تھا۔ بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں کو خدشہ ہے کہ اس سے جنگ زدہ ملک میں ان کی امدادی سرگرمیاں متاثر ہوسکتی ہیں۔

یہ مشترکہ اپیل مرسی کورپس، آکسفیم، سیو دی چلڈرین اور ناروے کی رفیوجی کونسل جیسی عالمی تنظیموں کی جانب سے کی گئی ہے۔ شیعہ باغی تنظیم حوثیوں کا یمن کے ایک بڑے علاقے پر کنٹرول ہے جس میں سے ایک بڑا خطہ قحط زدہ ہے۔ 

امریکی فیصلے سے یمن میں کام کرنے والی بیشتر امدادی تنظیموں کی امریکا میں املاک اور اکاؤنٹ متاثر ہوئے ہیں تاہم ریڈ کراس جیسی بعض تنظیموں کو اس سے استثنی بھی حاصل ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے آخری اوقات میں یہ فیصلہ کیا تھا جس کا نفاذ صدر بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کچھ گھنٹے پہلے ہی ہوا تھا۔

حوثیوں کو شدت پسند تنظیم قرار دیے جانے کے امریکی فیصلے کے اثرات کیا ہوں گے اس کا اب بھی قانونی سطح پر جائزہ لیا جا رہا ہے۔ تاہم امدادی کارکنوں نے بتایا ہے کہ اس سے بین الاقوامی بینکوں، جہاز رانی کی کمپنیوں اور سپلائرز کو یمن میں اپنا کام جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے، ''لاکھوں جانوں کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔''

فاقہ کشی کا شکار یمنی بچے

اس مشترکہ اپیل میں کہا گیا ہے کہ فیصلے سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورت حال اور تاخیر کی وجہ سے غذا، ادویات اور ضروری ایندھن جیسی اہم اشیا کی فراہمی متاثر ہوگی۔ بائیس گروپوں نے اپنی مشترکہ اپیل میں کہا کہ دہشت گرد قرار دیے جانے کا، ''فیصلہ ایسے وقت آیا جب چھ

 برس سے جاری تنازعے کی وجہ سے تباہ حال ملک کے لیے قحط ایک حقیقی خطرہ بن چکا ہے۔''

گزشتہ جمعے کو نئی امریکی انتظامیہ نے اس بارے میں کہا تھا کہ اس معاملے کا ابھی تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل اسٹیفین دوجارک نے بھی امریکا سے اس فیصلے کو واپس لینے کی اپیل کی تھی۔

سعودی عرب اور ایران کی بالواسطہ جنگ

یمن میں سنہ 2015 سے ہی سعودی عرب کی قیادت والے عرب اتحاد اور عالمی سطح پر منظور شدہ یمنی حکومت کی جانب سے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف جنگ جاری ہے۔ سعودی عرب کی قیادت والے اس اتحاد کو امریکا کی بھی حمایت حاصل رہی ہے اور اس جنگ کو خطے میں درپردہ سعودی عرب اور ایران کی رسہ کشی کے طور پر بھی دیکھا جا تا ہے۔

اقوام متحدہ نے یمن کو دنیا کا بدترین موجودہ انسانی بحران قرار دے رکھا ہے، جس میں جنگ کی وجہ سے اب تک تقریباً سوا لاکھ افراد کی جانیں جا چکی ہیں۔

کم عمر قیدیوں کی رہائی کی کوشش 

اتوار کے روز ہی اردن کے دارالحکومت عمان میں یمن کی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان ممکنہ قیدیوں کے تبادلے کے لیے بھی مذکرات کا آغاز ہوا۔ یہ بات چیت ریڈ کراس کی مدد سے ہو رہی ہے۔

امریکا کے خصوصی سفیر مارٹن گریفتھ نے فریقین پر زر دیا ہے کہ انہیں، ''بیمار، زخمیوں، بوڑھوں اور نظربند بچوں جیسے تمام افراد کی فوری اور غیر مشروط رہائی کو ترجیح دینا چاہیے اور اس کے ساتھ ہی خواتین سمیت ان تمام افراد کو بھی رہا کیا جائے جن کی اندھا دھند گرفتاریاں ہوئی ہیں۔''

گزشتہ اکتوبر میں جنیوا کی مدد سے ہونے والی بات چیت کے بعد ایک ہزار سے زائد قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی فریقین کے درمیان کچھ قیدیوں کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ ان اقدامات سے اس بات کی امید بڑھ گئی تھی کہ سن 2018 میں فریقین کے درمیان سویڈین میں

 جو امن معاہدہ طے پایا تھا اس پر عمل کی گنجائش ہے۔

 ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی) 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں