1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امريکہ، يمن کے صدر صالح کا ساتھ چھوڑ چکا ہے

7 اپریل 2011

يمن ميں صدر عبداللہ صالح کی حامی سکيورٹی فورسز اور ان کے مخالفين کے درميان خونی جھڑپوں ميں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔ امريکہ نے اس پر تنقيد کی ہے اور اب وہ يمن کی فوجی امداد روک دينے پر غور کررہا ہے۔

https://p.dw.com/p/10pPb
epa02669776 Yemeni anti-regime protesters face anti-riot forces during a protest demanding the ouster of Yemeni President Ali Abdullah Saleh in the southern Yemeni city of Taiz, 04 April 2011. According to local media sources, at least 12 Yemeni anti-regime protesters were killed and 500 injured in the southern Yemeni province of Taiz, when security forces tried to disperse protesters. Anti-government protests have continued across Yemen calling for President Ali Abdullah Saleh to step down. EPA/STRINGER BEST QUALITY AVAILABLE +++(c) dpa - Bildfunk+++
يمن ميں حکومت کے خلاف مظاہرہتصویر: picture alliance / dpa

اپنے رياستی ڈھانچوں کے کمزور ہونے اور پسماندگی کی وجہ سے يمن القاعدہ کے دہشت گردوں کی پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے اور صدر صالح اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں قابل اعتماد ساتھی ثابت ہوئے ہيں۔

پچھلے کئی برسوں سے يمن کو جزيرہ نما عرب پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سلسلے ميں امريکی کارروائيوں کے ايک گڑھ کی حيثيت حاصل رہی ہے۔ صدر علی عبداللہ صالح امريکہ کے اہم ترين اتحاديوں ميں شمار ہوتے ہيں۔ انہوں نے اس شرط پر کہ ان کے ملک کو کثير مقدار ميں فوجی مدد ملتی رہے، سی آئی اے کی سرگرميوں اور مشتبہ دہشت گردوں پر امريکی فوجی حملوں کے لیے کھلی چھوٹ دی رکھی ہے۔ ليکن اب يمن شورش کی زد ميں ہے۔ حکومت کے خلاف مظاہرے مسلسل جاری ہيں اور سرکاری دستوں نے غير مسلح مظاہرين پر گولی چلائی ہے۔ صدر صالح اقتدار سے دستبردار ہونے سے انکار کررہے ہيں۔

Fotograf/Datum: Saleh Abdullah, August 2008 Aufnahmeort: South Yemen. Beschreibung: Carrying a gun in the social occasion for one of the tribes of Yemen. Bildrechte: Verwertungsrechte im Kontext des Global Media Forums eingeräumt.
يمن ميں مسلح شہریتصویر: Saleh Abdullah

چند دن پہلے امريکی وزير دفاع گيٹس نے کہا تھا کہ کسی کو يمن کے داخلی معاملات ميں مداخلت نہيں کرنا چاہيے۔ ليکن منگل پانچ اپريل کو صدارتی ترجمان نے مظاہرين کے خلاف يمنی حکومت کے طاقت کے استعمال پر تنقيد کرتے ہوئے کہا:

او ٹون

’’ دہشت گردی کے خلاف يمنی حکومت سے ہمارا تعاون کسی ايک فرد پر منحصر نہيں ہے۔ ہم متفکر ہيں کہ القاعدہ اور دوسرے گروپ سياسی بے چينی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طاقت کے خلاء کو پر کرنے کی کوشش کريں گے۔ اس وجہ سے ہم بھی چاہتے ہيں کہ يمن ميں سياسی مکالمت شروع ہو اور صدر صالح نے جس سياسی تبديلی کا وعدہ کيا تھا وہ اب شروع ہو جائے۔‘‘

ايسا معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں ساتھی کی حيثيت سے يمنی صدر کے دن پورے ہو چکے ہيں۔ واشنگٹن نے ان کا ساتھ چھوڑ ديا ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ امريکی دفاعی بجٹ ميں يمن کے لیے کوئی فوجی مدد نہيں رکھی گئی ہے۔ پچھلے سال امريکہ نے سکيورٹی فورسز کی تربيت اور ہتھياروں کے لیے يمن کو 150 ملين ڈالر کی امداد دی تھی۔

epa02664398 A Yemeni anti-regime protester flashes the victory sign and holds a banner during a demonstration demanding the ouster of Yemeni President Ali Abdullah Saleh in Sana'a, Yemen, 01 April 2011. Tens of thousands of anti-government protesters gathered in main squares across Yemen on 01 April, even as President Ali Abdullah Saleh called on his supporters to rally in support of him. Demonstrations began in Yemen in February, with protesters calling for the ouster of Saleh who has been in power since 1978. EPA/YAHYA ARHAB
دارالحکومت صنعا ميں حکومت مخالف مظاہرہتصویر: picture alliance/dpa

امريکہ اور يورپ ميں طياروں ميں رکھے جانے والے بموں ميں يمنی افراد کے ملوث ہونے کی وجہ سے يورپ اور امريکہ کو خطرہ ہے کہ صدر صالح کی حکومت کے خاتمے اور انتشار سے دہشت گردی کا خطرہ بڑھے گا، ليکن دہشت گردی کے امور کے ماہر جيريمی اسکاہل کا کہنا ہے کہ اوباما انتظاميہ کا صرف اور صرف فوجی پہلو پر توجہ دينا غلط ہے ۔ ان کے مطابق علاقے کے غريب ترين ملک يمن ميں القاعدہ کے بارے میں پائے جانے والے خطرے ميں مبالغے سےکام ليا جارہا ہے۔

رپورٹ: ڈانيل شيشکيوٹس/ شہاب احمد صديقی

ادارت: امتياز احمد