1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امداد کی بندش: ٹرمپ کا فیصلہ سستی بلیک میلنگ، فلسطینی رہنما

25 اگست 2018

تنظیم آزادی فلسطین کی ایک اعلیٰ رہنما کے مطابق فلسطینیوں کی امداد کی بندش کا امریکی صدر ٹرمپ کا فیصلہ ’سستی بلیک میلنگ‘ ہے، جسے وہ غیر قانونی قبضے میں اسرائیل کی مدد کرتے ہوئے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/33k3e
تصویر: DW/Y. Boechat

تل ابیب سے ہفتہ پچیس اگست کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کی اعلیٰ رہنما حنان اشراوی نے یہ بات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلسطینیوں کے لیے 200 ملین ڈالر کی امداد بند کر دینے کے تازہ ترین فیصلے کے ردعمل میں کہی۔

جمعہ چوبیس اگست کو رات گئے جاری کردہ اپنے ایک بیان میں حنان اشراوی نے کہا، ’’امریکی انتظامیہ پہلے بھی اپنی سوچ میں کم ظرفی اور اسرائیل کے فلسیطینی علاقوں پر غیر قانونی قبضے کے سلسلے میں اسرائیل کی حمایت کا اظہار کر چکی ہے۔‘‘

حنان اشراوی نے مزید کہا، ’’اب اخلاقی کم ظرفی کے مظہر اپنے اس نئے اقتصادی اقدام کے ساتھ امریکی انتظامیہ اسرائیلی قبضے کے فلسطینی متاثرین کو سزا دے رہی ہے۔‘‘ انہوں نے زور دے کر کہا کہ واشنگٹن کے اس تازہ اقدام سے فلسطینی اپنے حوصلے نہیں ہاریں گے۔

اشراوی کے اس بیان کا پس منظر امریکا میں محکمہ خارجہ کے ایک اعلیٰ اہلکار کی طرف سے کل جمعے کے روز کیا جانے والا یہ بیان بنا کہ واشنگٹن نے مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں فلسطینیوں کی امداد کے لیے جو 200 ملین ڈالر کی رقوم مختص کی تھیں، وہ اب ’دیگر مقاصد‘ کے لیے استعمال کی جائیں گی۔

ساتھ ہی امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اس اہلکار نے یہ بھی کہا تھا، ’’ٹرمپ انتظامیہ کی خواہش ہے کہ یہ رقوم اس طرح استعمال کی جائیں کہ امریکی ٹیکس دہندگان کی طرف سے ادا کردہ یہ مالی وسائل امریکا کے قومی مفادات کے منافی استعمال نہ ہو سکیں۔‘‘

ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ واشنگٹن میں اعلیٰ حکام نے صدر ٹرمپ کے اس نئے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے یہ الزام بھی لگایا کہ غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں اس وقت انسانی سطح پر جو تکلیف دہ اور بحرانی صورت حال پائی جاتی ہے، اس کی ذمے داری عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس پر عائد ہوتی ہے۔

غزہ پٹی کے فلسطینی علاقے میں عوام کو گزشتہ کافی عرصے سے شدید مصائب اور تکالیف کا سامنا ہے اور وہاں حکمران حماس کے ‍‌خلاف اقدامات کرتے ہوئے اسرائیل اور مصر دونوں نے ہی غزہ پٹی کے خلاف پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

اس تنازعے میں امریکی صدر ٹرمپ واضح طور پر اسرائیلی موقف کے حامی ہیں اور اسی سال انہوں نے اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ بھی تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا تھا، جس پر فلسطینی شدید ناراض ہوئے تھے۔

فلسطینیوں کی ناراضگی کی وجہ یہ ہے کہ یروشلم  شہر کا مشرقی حصہ ایک مقبوضہ علاقہ ہے اور فلسطینی اسے اپنی مستقبل کی خود مختار ریاست کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔

امریکا کی طرف سے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے پر بین الاقوامی سطح پر بھی تنقید کی گئی تھی۔ امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے یروشلم منتقلی کے بعد سے فلسطینیوں نے امریکا کے ساتھ اپنے جملہ سرکاری رابطے منقطع کر رکھے ہیں۔

م م / ا ا / ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید