1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

الیکشن کے حیرت انگیز نتائج: دھاندلی یا سونامی

26 جولائی 2018

الیکشن کے نتائج میں بظاہر پی ٹی آئی کی سونامی چل گئی ہے اور عمران خان کی تبدیلی کے نعرے پر قومی اسمبلی کی سطح پر سادہ اکثریت حاصل ہو رہی ہے۔ مگر یہاں ایک طرف جشن ہے، تو دوسری جگہ بعض سوالیہ نشانات بھی ہیں۔

https://p.dw.com/p/328xY
Pakistan Wahl | Auszählung der Stimmen in Karatschi
تصویر: Reuters/A. Soomro

مثال کے طور پر  مبصرین کا کا کہنا ہے کہ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے پورے چوبیس گھنٹے بعد بھی قومی اسمبلی کی 272 سیٹوں میں سے پچاس نشستوں کے نتائج بھی سامنے نہیں آئے۔ یہ کُل نشستوں کا بیس فیصد بھی نہیں بنتا تو اس بنیاد پر کیسے میڈیا پی ٹی آئی کو کامیاب قرار دے رہا ہے۔

 دوسری بات یہ کہ پی ٹی آئی کے علاوہ تمام بڑی جماعتیں بہ شمول پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علمائے اسلام اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی وغیرہ نےنتائج پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور سب نے ایک ہی الزام لگایا ہے کہ نتائج ان تمام پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹ کی غیرموجودگی میں وضع کیے گئے جبکہ الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق ہر پولنگ اسٹیشن میں ووٹوں کی گنتی پولنگ ایجنٹس کے سامنے کی جاتی ہے اور پریزائڈنگ آفیسر ان نتائج کو الیکشن کے فارم نمبر پینتالیس پر درج کرتا ہے اور اس پر تمام پولنگ ایجنٹس کے دستخط ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے علاوہ تمام پارٹیوں نے سادہ کاغذ پر غیر تصدیق شدہ نتائج دیے جانے کی شکایت کی۔

انتخابات ہار جانے والے بڑے نام

پاکستان میں عام انتخابات کے نتائج کو بھارت کیسے دیکھتا ہے؟

کل کے الیکشن کے اب تک کے حیرت انگیز نتائج کی بڑی وجوہات کیا ہیں یہ جاننے کے لیے ہم نے رابطہ کیا میڈیا سیفٹی کی تنظیم فریڈم نیٹ ورک کے ڈائریکٹر اور سینئیر صحافی اقبال خٹک سے تو انہوں نے کہا، ’’اہم بات یہ کہ دھاندلی کے مختلف جماعتوں کی طرف سے الزامات میں وزن اس بات سے بھی پیدا ہوتا ہے کہ اکثریت حلقوں میں پولنگ اسٹیشن پر نہ صرف ووٹنگ کے اوقات کار کے دوران بلکہ بعد ازاں ووٹنگ نتائج کی مرتب کاری کے دوران میڈیا کو پولنگ اسٹیشنز میں داخل ہی نہیں ہونے دیا گیا جبکہ الیکشن کمیشن نے باقاعدہ میڈیا کے ہزاروں نمائندگان کو سرکاری طور پر آزادنہ رپورٹنگ کی اجازت دی تھی۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ’’دوسری اہم بات یہ کہ جہاں تک ٹی وی میڈیا پر الیکشن کوریج بلا تعطل جاری ہے وہاں پر مسلسل چینلوں کے مطابق ووٹ کاسٹ کرنے والے ووٹرز کے ساتھ ’’گو سلو‘‘ پالیسی رکھی گئی، جس سے ایک اندازے کے مطابق کئی لاکھ ووٹرز اپنے ووٹ کاسٹ نہیں کر سکے۔ اس مد میں الیکشن کمیشن نے بڑی تمام جماعتیں بہ شمول پی ٹی آئی کے ووٹنگ کا دورانیہ ایک گھنٹہ بڑھا نے کی درخواست مسترد کر دی۔ چونکہ ووٹنگ کے بعد گنتی کے عمل کو ٹی وی میڈیا پر  نہیں دکھایا گیا اس سے اس الزام کو تقویت ملی کہ ضرور کچھ چھپایا جا رہا ہے جس کا اثر انتخابی نتائج پر ہوا۔ اس کے برعکس سوشل میڈیا پر کئی جگہوں کی فوٹیج شیئر کی گئی کچھ تو وائرل ہو گئی ہیں جس میں بظاہر کچھ سکیورٹی اہلکاروں کو بیلٹ باکسز تحویل میں لینے یا ان کی ترسیل کرتے ہوئے دکھایا جا سکتا ہے جس سے نتائج پر اثر اندازی کا گہرا شبہ پڑتا ہے۔‘‘

پاکستان میں بی بی سی اردو کے انچارج اور سینئر صحافی ہارون رشید نے الیکشن پراسس کے بارے میں ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں کہا،’’ویسے تو عمران خان نے اب یہ آفر کر دی ہے کہ اگر نئی بننے والی اپوزیشن کے کوئی تحفظات ہیں، اعتراضات ہیں تو وہ پولنگ اسٹیشن کھلوا سکتے ہیں جتنے چاہیں ان کو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اپنی طرف سے تو انہوں نے کوشش کی ہے کہ پارٹیاں مہم نہ چلائیں مخالفت نہ کریں لیکن میرا خیال ہے کہ  پارٹیوں کا جو اعتراض تھا وہ پولنگ کے دن تک نہیں تھا یہ تو کافی پہلے سے انتخابی مہم میں ہی الزام لگا رہے تھے کہ پری پول رگگنگ ہو رہی ہے اور پھر اس میں ریاستی اداروں کا کردار کیسا تھا اس کی تحقیقات کیسے ہو پائیں گی؟‘‘

ہارون رشید نے تنقید کرتے ہوئے کہا، ‘‘ہم نے پولنگ کے روز بھی دیکھا اور الیکشن کمیشن نے بھی کہا کہ تکنیکی وجوہات تھیں اور سکیورٹی وجوہات تھیں اور خود انہوں نے وضاحت بھی کی کہ پریزائیڈنگ افسر جو ہیں ان کو ریٹرنگ افسر تک لے جانے میں فوج کو دیر ہوئی اور پھر فوج کی اس پورے الیکشن پراسس کو کنٹرول کرنے کی کوشش حد سے زیادہ نظر آ رہی تھی اس نے بھی شکوک وشبہات کو جنم دیا اب دیکھتے ہیں کہ نئی آنے والی حکومت ان تحفظات کو کس طرح سے دور کرتی ہے۔‘‘

اسی بارے میں سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار سید طلعت حسین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح نتائج کے اعلان میں تاخیر کی جا رہی ہے ریٹرنگ آفیسرز کے دفاتر سیل کیے جا رہے ہیں انتخابی امیدواروں کی غیرموجودگی میں ووٹوں کی گنتی کی جا رہی ہے اس سے الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے لیےحکومت سازی کتنی مشکل ہوگی؟

عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنما افراسیاب خٹک نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ  ناصرف ووٹنگ کے عمل میں بڑے پیمانے پر انتظامی طور پر الیکشن سے قبل دھاندلی کی گئی بلکہ ووٹنگ والے دن بھی سیاسی انجینئرنگ کی گئی اور ان کی پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن چوری کر لیے گیے ہیں۔  دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ سینیٹر اور بلاول بھٹو کے قریبی ایڈوائزر فرحت اللہ بابر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے انتخابات پر کڑے تحفظات کا اظہار کیا انہوں نے الیکشن دو ہزار سترہ کو تاریخ کے آلودہ ترین انتخابات قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرف کے ریفرنڈم اور اس الیکشن میں تھوڑا سا بھی فرق نہیں ہے۔ 

پی ٹی آئی کو واضح اکثریت تو مل گئی لیکن اس مینڈٹ کی قانونی حیثیت کے بارے میں معروف شاعر، صحافی اور تجزیہ نگار حارث خلیق نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کہا، ’’یہ مسئلہ اخلاقی ہے، قانونی طور پر تو ٹھیک ہی ہوا ہے لیکن اخلاقی طور پر بہت مسئلہ ہے۔ اس آنے والی حکومت پر بہت دباؤ ہو گا ایک تو جو انہوں نے بڑے بڑے دعوے کیے ہیں اگر وہ  ان کو پورا نہیں کر سکے یا ان کی کارکردگی میں فرق ہوا تو کہا جائے گا کہ یہ الیکشن انجینیئرڈ تھے۔‘‘

انہوں نےمزید کہا، ’’اپوزیشن کے دھاندلی کے الزامات اپنی جگہ لیکن نتائج کو مانے بنا بھی نظام کو چلنا چاہیے۔ کیونکہ میری طرح کئی دیگر ہمیشہ عمران پر یہ تنقید کرتے رہے ہیں کہ یہ نظام کو چلنے نہیں دیتا تو اگر اب اپوزیشن بھی نظام چلنے نہ دے تو کیا فرق رہ جائے گا۔ مگر افسوس یہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ جو گالم گلوچ کی فضا خود عمران کی پارٹی نے بنائی ہے، اب اس کا مزہ خود ان کو بھی چکھنا پڑے گا۔ ایک بڑی جماعت کے لیڈر کو انہوں نے جیل میں ڈالا ہوا ہے، دوسری  جماعت کے کیسسز کھولے ہوئے ہیں لیکن خود اپنے اردگرد ویسے ہی لوگ جمع کیے ہوئے ہیں، تو مسائل تو بہت گھمبیر ہیں لیکن الیکٹورل سسٹم کو بہتر بنایا جائے اور تمام جماعتیں ملکر اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کو ممکن بنائیں۔‘‘