1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’القاعدہ نے جرمنی میں دہشت گردی کا حکم دیا تھا‘

30 اپریل 2011

جرمنی میں زیر حراست 3 مبینہ القاعدہ ارکان میں سے ایک کو گزشتہ برس القاعدہ کی جانب سے جرمنی میں دہشت گردی کی کارروائی کرنے کے احکامات ملے تھے۔ یہ بات دفتر استغاثہ کی جانب سے آج ہفتے کو ایک پریس کانفرنس میں بتائی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/116uv
کارلسروہے کی وفاقی عدالت
کارلسروہے کی وفاقی عدالتتصویر: picture-alliance/dpa

ان تین افراد کو کل جمعے کو حراست میں لیا گیا تھا۔ آج شہر کارلسروہے میں نائب وفاقی پراسیکیوٹر جنرل رائنر گریز باؤم نے بتایا کہ القاعدہ کے کسی سرکردہ عہدیدار کی جانب سے یہ احکامات مراکش سے تعلق رکھنے والے اُنتیس سالہ ملزم عبدالحکیم ایل کے کو ملے تھے، جس کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔ عبدالحکیم ایل کے غالباً اِس گروپ کا لیڈر ہے اور اُس نے میڈیا رپورٹوں کے مطابق پاک افغان سرحد کے قریب وزیرستان میں قائم انتہا پسندوں کے ایک کیمپ میں تربیت حاصل کی تھی۔ گریز باؤم نے بتایا کہ ان مشتبہ افراد کو شہر ڈسلڈورف میں دھماکہ خیز مواد تیار کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا لیکن یہ کہ ابھی اُنہوں نے کسی ہدف کا انتخاب نہیں کیا تھا۔

گریز باؤم نے بتایا:’’ملزمان کو جرمنی میں دہشت پسندانہ حملہ کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ ابھی اُنہوں نے کوئی ٹھوس ہدف نہیں چُنا تھا۔ دھماکہ خیز مواد کی تیاری کے سلسلے میں ابھی وہ تجرباتی مرحلے میں تھے۔ جہاں دو ملزمان رہائش پذیر تھے، وہاں ہمیں ارد گرد سے جو معلومات ملیں، اُن کی روشنی میں یہ ضروری ہو گیا تھا کہ ہم مزید انتظار کرنے کی بجائے ابھی سے اس گروہ پر سے پردہ اٹھا دیں۔‘‘

جرمن پولیس کے اہلکار ڈسلڈورف میں ایک ملزم کے گھر سے ملنے والی اَشیاء اپنی تحویل میں لے رہے ہیں
جرمن پولیس کے اہلکار ڈسلڈورف میں ایک ملزم کے گھر سے ملنے والی اَشیاء اپنی تحویل میں لے رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

جرمنی کی وفاقی پولیس کے سربراہ یورگ سیئرک نے بتایا کہ عبدالحکیم ایل کے نومبر 2010ء سے غیر قانونی طور پر جرمنی میں رہ رہا تھا اور اُس کے آسٹریا، مراکش، کوسووو اور ایران میں روابط تھے۔ گرفتار ہونے والے دیگر دو ملزمان میں سے ایک 31 سالہ مراکشی نژاد جرمن شہری ہے، جو الیکٹریشن کے طور پر کام کر رہا تھا۔ تیسرا ملزم ایک 19 سالہ ایرانی نژاد جرمن طالبعلم ہے۔ تاہم سیئرک نے کہا کہ اِس گروپ کے اصل ارکان کی تعداد سات، آٹھ یا پھر اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے اور ابھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خطرہ ٹل گیا ہے۔

سیئرک نے کہا:’’یہ بات واضح تھی کہ اِس گروپ کا سراغ لگنے کے بعد اگر جلد سو فیصد تفصیلات کا علم نہ ہو سکا تو اِس گروہ کے سلسلے میں مزید تحقیقات مشکل تر ہو جائیں گی۔ ایسے میں یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی کہ خطرہ ٹل گیا ہے۔‘‘

ایک فائل سے اپنا چہرہ چھپائے ایک ملزم کو کارلسروہے کی وفاقی عدالت میں پیش کرنے کے لیے لیے جایا جا رہا ہے
ایک فائل سے اپنا چہرہ چھپائے ایک ملزم کو کارلسروہے کی وفاقی عدالت میں پیش کرنے کے لیے لیے جایا جا رہا ہےتصویر: picture alliance/dpa

اس سے پہلے جرمن روزنامے ’بلڈ‘ نے بتایا تھا کہ ان تینوں ملزمان کو ’دھماکہ خیز مواد کی بھاری مقدار کے ساتھ‘ صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں گرفتار کیا گیا۔ مزید یہ کہ پولیس نے ان ملزمان کے منصوبوں کا پتہ موبائیل فونز پر اُن کی بات چیت اور کمپیوٹر پر اُن کے روابط پر نظر رکھتے ہوئے چلایا تھا۔ پولیس گزشتہ چھ ماہ سے اِن پر نظر رکھے ہوئے تھی اور یہ لوگ اُس وقت توجہ کا زیادہ مرکز بنے، جب اِنہوں نے بھاری مقدار میں چند مخصوص کیمیاوی مادے خریدنے کی کوشش کی تاکہ کسی بڑے جرمن شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے کو حملے کا نشانہ بنا سکیں۔

واضح رہے کہ جرمن حکام نے امریکی اداروں کے اس انتباہ کے بعد اپنے ہاں حفاظتی انتظامات مزید سخت کر دیے تھے کہ القاعدہ گروپ برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں ’ممبئی طرز کے‘ حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں