1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

الطاف حسین پر غداری اور دہشت گردی پر اکسانے کا مقدمہ درج

بینش جاوید24 اگست 2016

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق الطاف حسین پر پاکستان میں غداری اور دہشت گردی پر اکسانے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ ادھر الطاف حسین نے اپنی پارٹی کے تمام اختیارات رابطہ کمیٹی کے سپرد کر دیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Jo60
Pakistan Parteien Anhänger von Altaf Hussain
تصویر: picture-alliance/dpa

ایم کیو ایم کے رہنما واسع جلیل نے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے شائع کیا۔ اس بیان کے مطابق، ’’ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اور ایم کیو ایم کے دیگر ممبران کی جانب سے جاری کیے گئے بیانات کے پیش نظر میں تنظیم نو، پالیسی سازی اور فیصلے لینے کے اختیارات رابطہ کمیٹی کے سپرد کرتا ہوں۔‘‘

لندن میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے والے الطاف حسین نے اس بیان میں مزید کہا ہے کہ وہ رابطہ کمیٹی کی تجویز پر اپنی تندرستی پر توجہ دینے کی کوشش کریں گے۔

اس بیان میں ایم کیو ایم کے سربراہ نے یہ دہرایا کہ وہ انتہائی ذہنی دباؤ کا شکار تھے، جو ان کی جانب سے پاکستان مخالف بیانات دینے کا سبب بنا۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف اپنے الفاظ پر پاکستانی عوام سے معافی بھی مانگی۔

Pakistan Farooq Sattar in Karatschi
تصویر: DW/U. Fatima

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کہا ہے کہ پاکستان کی پولیس نے الطاف حسین پر غداری اور دہشت گردی پر اکسانے کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ لندن میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے والے الطاف حسین نے رواں ہفتے پیر کے روز اپنے پارٹی کارکنان سے ٹیلی فونک خطاب کے دوران نہ صرف خود پاکستان مخالف نعرے لگائے تھے بلکہ کراچی میں موجود پارٹی ممبران نے بھی ان کا ساتھ دیا تھا۔

الطاف حسین نے ایم کیو ایم کے کارکنان کی بھوک ہڑتال کو میڈیا پر ’مناسب کوریج‘ نہ دیے جانے پر میڈیا کے خلاف بھی کارکنوں کو مبینہ طور پر اکسایا تھا۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق پولیس رپورٹ میں درج کیا گیا ہے کہ الطاف حسین نے اس تقریر میں ’پاکستان مردہ باد‘ کے نعرے لگائے اور پاکستان کو ’دہشت گردی کا مرکز‘ قرار دیا۔

الطاف حسین کے خطاب کے بعد ’ایم کیو ایم‘ کے مظاہرین نے کراچی میں نیوز چینل اے آر وائی کے دفتر پر مبینہ طور پر حملہ کر دیا تھا۔ اے آر وائی نیوز نے اپنی ٹرانسمیشن کے دوران اپنے دفتر پر ہونے والے حملے کی فوٹیج بھی نشر کی تھی، جس میں حملہ آور دفتر میں توڑ پھوڑ کرتے دیکھے جا سکتے تھے۔ اے آر وائی کے دفتر اور قریبی دوکانوں میں توڑ پھوڑ کے واقعات اور فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک بھی ہوا تھا۔

ان پرتشدد واقعات کے بعد رینجرز نے کراچی میں ایم کیو ایم کے دفاتر کو بند کر دیا تھا اور تفتیش کی خاطر ایم کیو ایم کے کئی رہنماؤں کو عارضی طور پر تحویل میں بھی لیا تھا۔ منگل کے دن ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینئر ڈاکٹر فاروق ستار نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ایم کیو ایم کے لندن دفتر سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا تھا۔ انہوں نے میڈیا کے نمائندگان سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’جب تک الطاف حسین صحت یاب نہیں ہوتے، تب تک پارٹی کے تمام فیصلے پاکستان سے کیے جائیں گے۔‘‘

فاروق ستار کی اس پریس کانفرنس کے بعد پاکستانی میڈیا میں یہ چہ مگوئیاں شروع ہو گئی تھیں کہ فاروق ستار نے الطاف حسین کی جگہ ایم کیو ایم کی قیادت سنبھال لی ہے۔ تاہم ایم کیو ایم کے دیگر سینیئر رہنماؤں نے اپنے بیانات میں اس تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین ہی ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید