1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اقلیتی افراد کے قتل: اقلیتوں کو تشویش

18 مئی 2022

پاکستان میں اقلیتی برادری کے افراد کی حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے اقلیتی برادری کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں بھرپور تحفظ فراہم کیا جائے۔

https://p.dw.com/p/4BTIG
Pakistan Peshawar | Anschlag auf Sikh
تصویر: Mohammad Zubair/AP Photo/picture alliance

اتوار پندرہ مئی کو سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے دو افراد بیالیس سالہ کنول جیت سنگھ اور 38 سالہ رنجیت سنگھ کو پشاور کے ایک نواحی علاقے میں واقع تل بازار میں اس وقت قتل کر دیا گیا، جب ان میں سے ایک اپنی دوکان پر اور ایک دکان کے باہر تھا۔ ملزموں نے ان پر کلاشنیکوف سے فائرنگ کی۔

سربلند تھانے کی ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ان افراد کو کسی بھی طرح کے بھتے کی کال موصول نہیں ہوئی تھی، اس بازار میں اور سکھوں کی دکانیں بھی ہیں لیکن ان دو افراد کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔‘‘

لاہور میں مسیحی نوجوان کا قتل، نو ملزمان گرفتار

 اوکاڑہ کے علاقے میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے عبدالسلام ولد منظور احمد طارق کو چھریوں کے وار کر کے منگل سترہ مئی کو قتل کیا گیا۔ ان کے رشتے داروں کی طرف سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق ایک مذہبی جنونی نے عبدالسلام کو قتل کیا۔

Pakistan Peshawar | Anschlag auf Sikh
پندرہ مئی کو پشاور کے قریب قتل کیے جانے والے دو سکھوں میں سے ایک کی نعش کے گرد رشتہ دار جمع ہیںتصویر: Mohammad Zubair/AP Photo/picture alliance

جماعت احمدیہ

انجمن احمدیہ پاکستان کے شعبہ اطلاعات کے سربراہ عامر محمود کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں میں 17 احمدیوں کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ان ہلاکتوں کے علاوہ احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد پر قاتلانہ حملے بھی ہوئے اور ان کی جائیدادوں کو بھی نقصان پہنچایا گیا، کمیونٹی کے کئی افراد خوف کے عالم میں ہیں اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں وہ ہجرت کر رہے ہیں۔‘‘

اقلیتوں میں احساس عدم تحفظ بڑھ رہا ہے

نیشنل مینارٹیز کمیشن کے رکن ڈاکٹر جے پال چھابڑیا کا کہنا ہے کہ حالیہ قتل کی وارداتوں سے اقلیتی برادری میں خوف بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''گزشتہ کچھ برسوں میں سکھوں پر حملے بڑھے ہیں، اسی طرح پنجاب میں احمدی اور مسیحیوں کے خلاف کارروائیاں ہوئی ہیں جب کہ سندھ میں ابھی کچھ دنوں پہلے ہی ایک ہندو مرد کو مارا گیا ہے، ان تمام واقعات سے اقلیتی برادری میں احساس عدم تحفظ بڑھ رہا ہے۔‘‘

پشاور: چالیس سالہ احمدی شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا

ڈاکٹر جے پال کے بقول ایک سو سے زائد سکھ گھرانے کے پی چھوڑ کے پنجاب اور ملک کے دوسرے علاقوں میں ہجرت کر گئے ہیں، ''ہمارے کمیشن کا اجلاس ہونے والا ہے، جہاں ہم یہ سارے مسائل اٹھائیں گے لیکن جس طرح پوری قوم نے سری لنکن شہری کے قتل پر اظہار یکجہتی کیا تھا، اسی نوعیت کی اظہار یکجہتی سکھوں، ہندوؤں، احمدیوں اور دوسرے اقلیتی افراد کو درکار ہے، اس کے علاوہ نفرت انگیز مواد اور تقاریر کے خلاف بھی سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔‘‘

Pakistan Anschläge auf Kirchen in Lahore
ٹارگٹ کلنگ کے خلاف لاہور میں سن 2015 میں مسیحی کمیونٹی کا احتجاجتصویر: picture-alliance/dpa/I. Sheikh

بھرپور مذمت

پاکستان کی سیاسی جماعتیں اقلیتی برادری کے افراد پر حملوں کی بھرپور مذمت کر رہی ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کہا کہنا ہے کہ ان حملوں سے یہ لگ رہا ہے کہ یہ جناح کا پاکستان نہیں ہے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''قائداعظم نے ایسے پاکستان کی بات کی تھی، جہاں پر رہنے والے تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں لیکن ہم اپنی اقلیتوں پر ظلم کر رہے ہیں، کبھی انہیں تندور میں زندہ جلا دیا جاتا ہے، کبھی کسی چھوٹی سی غلطی پر بستیوں کو آگ لگا دی جاتی ہے، کبھی جبری طور پر شادی کی جاتی ہے۔‘‘

مندر پر حملہ: پاکستانی ہندوؤں میں بڑھتا ہوا عدم تحفظ

کشور زہرہ کے مطابق ایم کیو ایم نے اس مسئلے کے حوالے سے تیس سال پہلے خبردار کیا تھا اور تمام سیاسی اکابرین پر زور دیا تھا کہ وہ انتہا پسندی کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیں،''اگر ہم اپنی اقلیتوں کو تحفظ فراہم نہیں کریں گے، تو پاکستان کو دنیا بھر میں شرمندگی کا سامنا ہو گا، جس سے ملک کی ساکھ بہت خراب ہو گی، ایک طرف ہم کرتار پور کھول رہے ہیں اور سکھ بھائیوں کے لیے سہولیات پیدا کر رہے ہیں، جو بہت اچھی بات ہے، لیکن دوسری طرف ہمیں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے بھی بھر پور کوشش کرنی چاہیے، اس حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک مشترکہ اسٹریٹجی بنانی چاہیے۔‘‘