1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
انسانی حقوقافغانستان

افغانستان کے لیے انسانی بنیادوں پر جرمن امداد بھی معطل

28 دسمبر 2022

کئی دیگر ممالک کی طرح جرمنی کی غیر سرکاری تنظیموں نے بھی افغانستان کی انسانی بنیادوں پر امداد کا سلسلہ روک دیا ہے۔ ایسا افغان طالبان کی طرف سے ان تنظیموں کے لیے کام کرنے والی خواتین پر پابندی لگائے جانے کے بعد کیا گیا۔

https://p.dw.com/p/4LUu3
Afghanistan Taliban women ban
افغانستان میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے طالبان کی حکومت خواتین کے بہت سے بنیادی حقوق مسلسل منسوخ یا محدود کرتی جا رہی ہےتصویر: Bilal Guler/AA/picture alliance

کابل میں گزشتہ برس اگست میں دوبارہ اقتدار میں آنے والے طالبان کی حکومت نے گزشتہ اختتام ہفتہ پر اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں امدادی منصوبوں پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں یا این جی اوز کی خواتین کارکن ان اداروں کے لیے اب مزید کام نہیں کر سکیں گی۔

اقوام متحدہ: طالبان کی جانب سے خواتین پر پابندیوں کی مذمت

چوبیس دسمبر کے اس اعلان کے بعد متعدد مغربی ممالک کی بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والی این جی اوز نے افغانستان میں اپنی سرگرمیاں روک دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان کے لیے تباہ شدہ ملک افغانستان میں اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی خواتین کارکن آئندہ بھی اپنے امدادی فرائض انجام دیتی رہیں۔

اس سلسلے میں اب جرمن این جی اوز نے بھی ہندوکش کی اس ریاست میں انسانی بنیادوں پر اپنی طرف سے امداد کا سلسلہ روک دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جرمن حکومت بھی یہ منصوبہ بندی کر رہی ہے کہ وہ بھی اپنی طرف سے افغانستان کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی معطل کر دے۔

افغانستان میں خواتین کی تعلیم پر پابندی، پاکستان میں بھی احتجاج

غربت کی وجہ سے افغانستان ميں بچے برائے فروخت

'کام جاری رکھنا ناممکن‘

کابل میں طالبان کی انتظامیہ نے غیر ملکی این جی اوز کی خواتین کارکنوں پر جو پابندی لگائی، اس پر عالمی سطح پر تاحال شدید تنقید کی جا رہی ہے۔

ترقیاتی امداد کی وفاقی جرمن وزیر سوینیا شُلسے نے بدھ اٹھائیس دسمبر کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا، ''افغانستان میں غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے خواتین کارکنوں کی بھرتی اور ان سے کام لینے پر پابندی لگا کر طالبان نے افغان عوام کو دی جانے والی امداد کو غیر ذمے دارانہ طور پر شدید نقصان پہنچایا ہے۔‘‘

افغانستان میں یونیورسٹی پر پابندی کے خلاف طلبہ کا احتجاج اور گرفتاریاں

سوینیا شُلسے کے مطابق، ''اپنی خواتین کارکنوں پر لگائی جانے والی پابندی کے باعث غیر حکومتی تنظیمیں بہت سے علاقوں میں افغانستان کی نصف آبادی کے لیے اپنا کام جاری رکھ ہی نہیں سکتیں۔‘‘

وفاقی جرمن وزیر برائے ترقیاتی امداد شُلسے نے کہا ہے کہ طالبان کی طرف سے عائد کردہ اس پابندی کے بعد پیدا شدہ صورت حال بالکل نئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی وزارت اور عالمی بینک مل کر افغانستان کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ٹرسٹ فنڈ کےشراکت داروں کو دعوت دیں گے تاکہ اس بارے میں غور کیا جا سکے کہ افغانستان کے لیے ریلیف کی کوششوں کو اس نئی صورت حال میں مربوط کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

افغانستان میں خواتین کے لیے اب یونیورسٹی کے بھی دروازے بند

جرمن وزیر ‌خارجہ کی طرف سے بھی مذمت

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے بھی افغانستان میں غیر ملکی این جی اوز کی خواتین کارکنوں پر لگائی گئی پابندی کی بھرپور مذمت کی ہے۔ انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا، ''ہم یہ قبول نہیں کریں گے کہ طالبان افغان خواتین کی تذلیل اور تضحیک کی اپنی کوششوں میں انسانی بنیادوں پر امدا دکی فراہمی کو بھی شطرنج کے مہرے کی طرح استعمال کریں۔‘‘

انالینا بیئربوک کے مطابق، ''انسانی بنیادوں پر ضروری دیکھ بھال اور زندہ رہنے کے لیے ناگزیر نگہداشت کو خطرے میں ڈالتے ہوئے طالبان نہ صرف انسانی بنیادوں پر امدا دکے بنیادی اصولوں کی نفی کر رہے ہیں بلکہ وہ افغانستان کی نصف آبادی سے اس کا ایک اور بنیادی حق بھی چھینتے جا رہے ہیں۔‘‘

چینی شہریوں اور اداروں کا افغانستان سے نکل جانا: طالبان کے لیے دھچکا

افغان ریلیف اور ترقی کے لیے مصروف اداروں کے مابین رابطے کا کام کرنے والی ایجنسی کا نام اے سی بی اے آر (ACBAR) ہے، جو 183 مقامی اور بین الاقوامی امدادی گروپوں اور تنظیموں کا نمائندہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے۔

اس ایجنسی کے مطابق اس کے رکن بہت سے امدادی گروپ اور تنظیمیں طالبان کی طرف سے خواتین کارکنوں پر لگائی گئی پابندی کے بعد اس ملک میں اپنی سرگرمیاں معطل کر چکے ہیں۔

م م / ش ر (بین نائٹ)