1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کے ضلع سنگین پر طالبان کی چڑهائی

شادی خان، کابل21 دسمبر 2015

افغان طالبان نے جنوبی صوبے ہلمند کے ایک ضلع پر قبضه کر کے یه واضح پیغام دے دیا ہے که حکومت کے خلاف ایک دہائی سے بهی زیاده عرصے تک لڑنے کے باوجود نہ تو ان کی عسکری قوت ختم ہوئی اور نه ہی عزائم پست ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1HR4O
Afghanistan Kämpfe in der Prozinz Helmand
تصویر: picture-alliance/landov/A. Aziz Safdary

اتوار کی شب سے اب (مقامی وقت دوپہر تین بجے) تک طالبان اور افغان سکیورٹی فورسز کے مابین جهڑپوں کا سلسله جاری تها۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے که عسکریت پسندوں نے ضلعی انتظامیه کے مقامی دفتر، پولیس کے صدر دفاتر، بلدیه کے دفاتر اور بازاروں پر قابض ہوکر وہاں لوٹ مار اور بربادی مچا ڈالی ہے۔

مقامی پولیس ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا که طالبان کے حملوں میں کم از کم چوبیس پولیس اہلکاروں کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں جبکه کئی دیگر زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اس سے قبل ہلمند صوبے کے نائب گورنر محمد جان رسولیار نے صدر اشرف غنی کے نام ایک کهلے خط میں خدشه ظاہر کیا تها که طالبان کے پے درپے حملے ہلمند میں بهی قندوز طرز کی بربادی کی صورتحال پیدا کرسکتے ہیں۔ رسولیار نے دعوی کیا تها که نوے سکیورٹی اہلکار طالبان کے حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔

آج بروز پیر صحافیوں کو تازه صورتحال سے متعلق احوال بتاتے ہوئے ہلمند کے گورنر مرزا خان رحیمی نے کہا که سنگین پر طالبان مکمل طور پر قابض نہیں ہوئے ہیں البته اس ضلع میں حکومتی فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین گهمسان کی جنگ جاری ہے۔ رحیمی نے مزید کہا که تازه دم دستوں کو سنگین کی جانب روانه کر دیا گیا ہے اور جلد وہاں سے طالبان کا ’صفایا کردیا جائے گا‘۔

دوسری جانب طالبان اپنے تبلیغی (پراپیگنڈه) ذرائع سے سنگین کی ’فتح‘ کا خوب پرچار کر رہے ہیں۔ ان کے ایک ترجمان قاری یوسف احمدی نے ایک پیغام میں دعوی کیا ہے که سکیورٹی فورسز کو پسپا کرتے ہوئے ان کا اسلحہ بھی چھین لیا گیا ہے۔ طالبان عسکریت پسندوں کی ایسی تصاویر بهی جاری کی گئی ہیں، جن میں وه افغان سکیورٹی دستوں کی بکتر بند گاڑیوں پر سوار ہیں۔

سنگین افغانستان بهر میں افیون کی کاشت اور طالبانائزیشن کے حوالے سے خاصا مشہور ضلع ہے۔ ضلع سنگین پر قريب چار ماه قبل اگست میں بهی طالبان نے مختصر دورانیے کے لیے قبضه جمالیا تها، جس دوران دونوں اطراف کئی ہلاکتیں بهی ہوئی تهیں۔ یه که آخر پهر کیوں اور کیسے طالبان مڑکر سکیورٹی فورسز پر اس قدر کاری ضرب لگانے میں کامیاب هوئے؟ ايک معمه بنا ہوا ہے۔

Afghanistan Kämpfe in der Prozinz Helmand
’سنگین پر طالبان مکمل طور پر قابض نہیں ہوئے ہیں بلکہ وہاں حکومتی فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین گهمسان کی جنگ جاری ہے‘تصویر: Reuters/A. Malik

ولسی جرگه (ایواں زیریں) میں ہلمند کی نمائنده نسیمه نیازی کے بقول اس کی وجه خود طالبان سے بڑھ کر مقامی انتظامیه ہے، جو بقول ان کے منشیات کے دهندے میں ملوث ہے۔ ایوان میں آج سنگین کے موضوع پر بحث میں حصه لیتے ہوئے نسیمه نیازی نے کہا که ہلمند کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے سرکره افسران کی زیاده توجه منشیات کی سمگلنگ پر مرکوز رہتی ہے اور طالبان اس کا فائده اٹهاتے ہیں۔

انہوں نے خدشه ظاہر کیا که اگر طالبان کے قدم ضلع گریشک میں بهی جم گئے تو ملحقه ہرات، فراه اور قندهار صوبوں پر بهی طالبان کے خونریز حملوں کا راسته نہیں روکا جاسکے گا۔ اکتوبر میں طالبان شمالی صوبه قندوز پر کم از کم تین روز تک قابض ره کر کابل حکومت کی خوب تضحیک کا سبب بنے تهے۔ اب اپنے مضبوط گڑه سمجهے جانے والے ملک کے جنوبی حصے میں بهی دهاک بٹهاکر طالبان نے اپنے نیٹ ورک کی وسعت کا ثبوت دیا ہے۔ سنگین میں یه تازه حمله ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب پاکستان کی کوششوں اور چین و امریکا کی نگرانی میں ایک مرتبه پهر افغان امن مذاکرات کو بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں