1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کی جانب سے پاکستانی کوششوں کی ستائش

شادی خان سیف، کابل18 جنوری 2016

افغان دارالحکومت کابل میں آج پیر 18 جنوری کو پاکستان، امریکا، چین اور میزبان ملک کے نمائندوں نے طالبان کے ساته امن مذاکرات کی بحالی پر غور کیا ہے۔ اس دوران افغانستان نے دہشت گردی مخالف پاکستانی کوششوں کو سراہا۔

https://p.dw.com/p/1HfaI
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Jalali

"ہم ماضی کی طرح ایک مرتبه پهر اعلان کرتے ہیں که افغان حکومت اور عوام طالبان کے ساته امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ وہ افغانستان کے آئین کو تسلیم کریں اور گزشتہ ایک دہائی کی پیشرفت اور بالخصوص خواتین کے حقوق کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں‘‘، افغان وزیر خارجه صلاح الدین ربانی نے ان الفاظ کے ساته اس مشاورتی عمل کا آغاز کیا۔

یه قریب ایک ہفتے کے اندر چار فریقی مذاکرات کا دوسرا مرحلہ ہے، جس میں ان پہلوؤں پر غور ہوا که آخر ایک دہائی سے بهی زائد عرصے سے جاری طالبان بغاوت کا کس طرح پر امن خاتمه ممکن بنایا جاسکے۔ گزشته پیر کو اسلام آباد کی میزبانی میں ہونے والے پہلے اجلاس میں جن نکات پر اتفاق ہوا تها، ان کے مطابق ایسے ترغیبی اقدامات کو ممکن بنایا جائے گا جو طالبان کو امن کی جانب مائل کرسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یه بهی طے پایا تها که ’’غیر حقیقی‘‘ امیدیں باندهنے اور شرائط رکهنے سے گریز کیا جائے گا جبکه امن مخالف عناصر کے خلاف دیگر عملی اقدامات اٹهائیں جائیں گے۔

افغان وزیر نے پہلے اجلاس کی میزبانی کرنے پر اسلام آباد کا شکریه ادا کیا اور مزید کہا که کابل میں منعقده دوسرا اجلاس اب تک کی پیشرفت کو مزید آگے بڑهانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ صلاح الدین ربانی نے خاص طور پر پاکستان کی ان کوششوں کو سراہا جو ان کے بقول ایسے عناصر کو نشانه بنانے سے متعلق ہے جو امن کے مخالف ہیں۔ ربانی نے مزید کہا که افغان قیادت کو پاکستانی قیادت کی دہشت گردی مخالف حالیه بیانات سے قیام امن کی امید بندهی ہے۔

یاد رہے که گزشته برس پاکستان کی ثالثی میں طالبان اور افغان حکومت کے مابین امن مذاکرات کے پہلے دور کا انعقاد ممکن ہوا تها۔ ماه اگست میں البته جب افغان دارالحکومت کابل بم دهماکوں سے لرز اٹها تو پاکستان کے لیے نرم گوشه رکهنے والے صدر اشرف غنی نے بهی اسلام آ‌باد پر طالبان کی پشت پناہی کا الزام عائد کرڈالا، جس کے بعد دو طرفه تعلقات سرمہری کا شکار ہوگئے اور امن مذاکرات کا سلسله یکسر منقطع ہوگیا۔

اگست میں کابل بم دهماکوں کے بعد صدر اشرف غنی نے بهی اسلام آ‌باد پر طالبان کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا تھا
اگست میں کابل بم دهماکوں کے بعد صدر اشرف غنی نے بهی اسلام آ‌باد پر طالبان کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا تھاتصویر: DW

دسمبر میں اسلام آباد میں منعقدہ “Heart of Asia” کانفرنس میں البته صدر غنی نے شرکت کر کے تعلقات بحال کیے اور چین و امریکا کی موجودگی میں پهر سے پاکستان کی جانب سے امن مذاکرات کی بحالی کی پیشکش کو قبول کیا۔ مبصرین کے بقول خطے میں دہشت گردی کی بدلتی شکل طالبان اور افغان حکومت کو مذاکرات کی جانب مائل کر رہی ہے تاہم اس عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں علاقائی و عالمی طاقتوں کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔

تجزیه نگار نظام الدین کے بقول داعش کی حالیه کارروائیوں نے خاصی دہشت پهیلا رکهی ہے، جس کے ہدف پر افغان حکومت اور طالبان دونوں ہیں۔

کابل میں منعقده چار فریقی مذاکرات سے محض ایک روز قبل جلال آباد شہر میں حکومت کے حامی ایک قبائلی رہنما کے گهر پر ہوئے خودکش حملے میں 13 افراد کی موت ہوئی تهی۔ اس حملے کے پیچھے داعش کے حامی عسکریت پسندوں کا ہاتھ تصور کیا جاتا ہے۔ تجزیه کاروں کے بقول گزشته برس عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کو مدنظر رکهتے ہوئے کابل حکومت کے لیے بهی ضروری ہے که وه امن مذاکرات کو کامیاب بنائے تاکه خونریزی کا یه سلسله روکا جاسکے۔