1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

افغانستان کا بحران: پاکستان کے متوازی بھارت میں بھی اجلاس

20 دسمبر 2021

اسلام آباد میں اسلامی تعاون کی تنظیم کے رکن ممالک کا جب اجلاس چل رہا تھا تو اسی دوران تنظیم کے بعض رہنما افغانستان کے بحران پر نئی دہلی میں میٹنگ کر رہے تھے۔ بھارت کی اس کوشش کا مقصد کیا ہو سکتا ہے؟

https://p.dw.com/p/44YwF
Russland | Indischer Außenminister Subrahmanyam Jaishankar
تصویر: Russian Foreign Ministry/AFP

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں اتوار کے روز افغانستان کی صورت حال پر وسطی ایشیائی ممالک کے وزراء خارجہ کی ہونے والی میٹنگ کے بعد ایک مشترکہ بیان میں خطے میں امن و استحکام کے قیام پر زور دیا گيا۔ شرکاء نے کابل میں ایک جامع حکومت کے قیام کی ضرورت پر زور دیا۔

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں 19 دسمبر اتوار کے روز جب افغانستان کے بحران کے حوالے سے اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے وزراء خارجہ اور دیگر ممالک کے اراکین پر مشتمل اجلاس جاری تھا، تو اسی دوران وسطی ایشیائی ممالک کے وزار خارجہ کی ایک میٹنگ نئی دہلی میں چل رہی تھی۔

بھارت نے افغانستان کے بحران پر ڈائیلاگ اور روابط کے لیے نئی دہلی میں جو مذاکرات شروع کیے، اس میں وسط ایشیائی ممالک کرغزستان، تاجکستان، قزاقستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزراء خارجہ نے شرکت کیا۔ ان میں سے تین ممالک کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہے۔

بھارتی موقف   

اس اجلاس کی صدارت بھارتی وزیر خارجہ ایس شیو شنکر نے کی جن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بھارت اور وسطی ایشیائی ممالک کے خدشات اور مقاصد ایک جیسے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک جامع حکومت، بلا روک ٹوک انسانی امداد اور حقوق کا تحفظ افغانستان کے اہم مسائل ہیں۔

بھارتی وزیر خارجہ نے اپنے افتتاحی خطاب میں ان ممالک سے کہا، ’’ہم سب ہی کے افغانستان کے ساتھ گہرے تاریخی اور تہذیبی تعلقات رہے ہیں۔ ہم سب کو افغانستان کے لوگوں کی مدد کے طریقے اور راستے تلاش کرنے چاہئیں۔‘‘ 

مشترکہ بیان

میٹنگ کے بعد اتوار کی شام کو ایک مشترکہ بیان میں کہا گيا کہ اجلاس میں شرکت کرنے والے رہنماؤں نے افغانستان کی موجودہ صورت حال اور خطے پر  پڑنے والے اس کے اثرات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گيا۔ ان سب نے،’’ایک پرامن، محفوظ اور مستحکم افغانستان کی مضبوط حمایت کا اعادہ کیا اور خود مختاری، اتحاد اور علاقائی سالمیت کے احترام اور اس کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر زور دیا۔‘‘

اس میں مزید کہا گيا،’’ انہوں نے موجودہ انسانی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا اور افغان عوام کو فوری انسانی امداد کی فراہمی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ تمام وزراء خارجہ نے افغانستان کی صورت حال پر قریبی مشاورت جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔

پاک بھارت تنازعہ: مسائل کیا ہيں اور ان کا حل کيوں ضروری ہے؟

بیان کے مطابق افغانستان سے متعلق ایک وسیع تر علاقائی اتفاق رائے قائم ہوا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ، ''اس میں ایک حقیقی اور جامع حکومت کی تشکیل، دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ سے مقابلہ کرنے، اقوام متحدہ کا مرکزی کردار، افغان عوام کے لیے فوری انسانی امداد کی فراہمی اور بچوں، خواتین اور دیگر قومی و نسلی گروہوں کے حقوق کا تحفظ شامل ہے۔‘‘

 مشترکہ بیان کے مطابق وزراء نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس قرارداد کی اہمیت کا اعادہ کیا جس میں، ''واضح طور افغانستان کی سرزمین دہشت گردانہ کارروائیوں، دہشت گردوں کوپناہ دینے، ان کی تربیت کرنے، منصوبہ بندی کرنے یا مالی معاونت کے لیے استعمال نہ ہونے کی بات کی گئی ہے اور تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کا مطالبہ کیا گيا ہے۔‘‘

بھارت کے لیے اس اجلاس کی اہمیت

بھارت نے یہ اجلاس ایسے وقت طلب کیا تھا جب اسلام آباد میں بھی افغانستان کی امداد کے لیے 27 رکنی اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کا اجلاس جاری تھا۔ وسطی ایشیا کے جن پانچ ملکوں نے نئی دہلی کے اجلاس میں شرکت کی وہ سب بھی او آئی سی کے رکن ہیں۔

بعض میڈیا خبروں میں دونوں اجلاس کا موازنہ بھی کیا گيا تاہم  مبصرین کے مطابق یہ موازنہ درست نہیں کیونکہ اسلام آباد کے اجلاس میں 57 اسلامی ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور کئی دیگر بین الاقوامی ادارے بھی شامل تھے اور یہ بہت وسیع پیمانے پر تھا۔ اس میں نئی دہلی میں شرکت کرنے والے ممالک نے بھی اپنا نمائندہ بھیجا تھا۔

بھارت نے اس بار جنوری میں اپنے یوم جمہوریہ کی تقریب کے موقع پر بھی انہیں ممالک کے پانچ سربراہان مملکت کو دعوت دی ہے۔ اگر بھارت اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوا تو اس بار قزاقستان کے صدر قاسم جومارت توکایوف، ازبکستان کے شوکت مرزیویف، تاجکستان کے امام علی رحمان، ترکمنستان کے گربنگ علی بردی محمدوف اور کرغزستان کے صدر جباروف جنوری میں دہلی آئیں گے۔

وسطی ایشیا کے یہ پانچ ممالک طالبان کے زیر اقتدار افغانستان کی صورت حال میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں اور نئی دہلی اس حوالے سے گزشتہ چند مہینوں سے ان کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔

حال ہی میں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کی میزبانی میں افغانستان کی سکیورٹی پر ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے ان تمام ممالک کے نمائندے دہلی آئے تھے۔ اس وقت ان سب نے افغانستان کی موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

صلاح الدین زین/ ک م

پاک بھارت کشيدگی کی مختصر تاريخ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں