1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں کوئی ’منظور نظر‘ نہیں، سرتاج عزیز

عبدالستار، اسلام آباد21 جون 2016

پاکستان کے مشیرِخارجہ سرتاج عزیز کے بیانات آج کل ملکی ذرائع ابلاغ کی زینت بنے ہوئے ہیں اور افغانستان سے کشیدہ صورتِ حال کے پیشِ نظر اِن کو بڑی سنجیدگی سے لیا بھی جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1JAZu
Taliban-Sprecher Sabiullah Mudschahid
تصویر: picture-alliance/dpa

سرتاج عزیز نے منگل کے دن یہ بیان دیا کہ افغانستان میں پاکستان کا کوئی منظور نظر نہیں ہے بلکہ اسلام آباد جنگ زدہ ملک میں امن کے لیے کام کر رہا ہے لیکن اس بیان سے ایک روز قبل ہی انہوں نے افغان مہاجرین کو پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔

ایک پاکستانی نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے مشیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے بعد افغان مہاجرین کے کیمپ دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں بن گئی ہیں اور اس کی وجہ سرحد کے دونوں اطراف لوگوں کی وہ آمدورفت ہے، جس کی نگرانی نہیں کی جا رہی۔ تاہم سرتاج عزیز نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ آیا یہ محفوظ پناہ گاہیں پاکستانی طالبان کے لیے ہیں یا افغان طالبان کے لیے۔

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنے قبائلی علاقوں میں حکومت کی رٹ قائم کر لی ہے لیکن اگر افغان سرحد پر آمدورفت کی مؤثر نگرانی نہیں کی گئی تو پاکستانی قبائلی علاقے محفوظ نہیں رہے سکتے۔ انہوں نے افغان مہاجرین کی واپسی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ واپسی آہستہ آہستہ ہوگی اور اس مقصد کے لیے پلان آف ایکشن کی ضرورت ہوگی۔

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان اب افغان مہاجرین کے مسئلے پر سخت مؤقف اپنا رہا ہے اور یہ مؤقف بنیادی طور پر افغانستان کی اسلام آباد مخالف پالیسوں کا ردِعمل لگتا ہے۔

سنیئر صحافی ناصر محمود نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان کے طاقت ور حلقے ملا اختر منصور کی ہلاکت پر چراغ پا ہیں اور اُنہیں اِس بات پر بھی غصہ ہے کہ امریکا نے ملا اختر منصور کو تو نشانہ بنایا لیکن جب اسلام آباد نے امریکا سے فضل اللہ کو نشانہ بنانے کا مطالبہ کیا تو اِس پر واشنگٹن نے کوئی کان نہیں دھرا۔‘‘

ناصر محمود کے مطابق، ’’ پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ طالبان کی حمایت ترک نہیں کر سکتا کیونکہ بھارت افغانستان میں قدم جما رہا ہے اور اسلام آباد کے پاس افغان طالبان کے علاوہ کوئی اور پاکستان نواز گروپ نہیں ہے، جس کی وہ حمایت کر سکے۔ تو اسٹریجک نقطہ نظر سے پاکستان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں کہ وہ افغانستان میں کوئی پاکستان نواز گروپ رکھے بھی اور اس کی حمایت بھی کرے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں محمود نے کہا افغان مہاجرین کو پاکستان سے واپس ان کے وطن روانہ کرنا آسان نہیں ہے، ’’وہ یہاں 35 سال سے رہ رہے ہیں۔ ان کی یہاں جائیدادیں ہیں۔ وہ یہاں کاروبار کرتے ہیں۔ مقامی لوگوں میں ان کی اب جڑیں ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں بسے ہوئے لوگوں کا نکالنا اور پھر ان کی واپسی کو ناممکن بنانے کے لیے اتنے طویل باڈرکی نگرانی کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان اُن کو واپس افغانستان بھیج سکے گا۔‘‘
پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستان خطے اور دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ دہشت گردی کا سبب اسلام آباد نہیں بلکہ غیر ملکی ہیں۔‘‘

Sartaj Aziz Pakistan Luxemburg ASEM-Aussenministertreffen
پاکستان کے مشیرِخارجہ سرتاج عزیز کے بیانات آج کل ملکی ذرائع ابلاغ کی زینت بنے ہوئے ہیںتصویر: DW/M.Luy

ڈاکڑ بکر نجم الدین کا کہنا تھا، ’’کابل انتظامیہ اسلام آباد پر یہ الزام لگاتی ہے کہ وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے اور ان کی معاونت کرتا ہے۔ پاکستان نے اب افغان حکومت کو یہ باور کرایا ہے کہ افغان مہاجرین کے کمیپوں میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔‘‘

ڈاکڑ بکر نجم الدین اس صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا، ’’اس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ افغان حکومت مہاجرین کو واپس بلا لے تاکہ دہشت گردی کا مسئلہ ختم ہو جائے، لیکن یہ کام کابل حکومت نہیں کر سکتی اور پاکستان کو بھی اس کا ادراک ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک یا افغان طالبان کو پاکستان پناہ نہیں دے رہا بلکہ افغان مہاجرین کی بے لگام آمد ورفت نہ صرف پاکستان کے لیے بلکہ افغانستان کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن رہی ہے اور اگر اس خطرے سے لڑنا ہے تو سرحدوں کی نگرانی کو موثر کریں اور وہاں تعمیرات ہونے دیں۔ تو بال اب افغان حکومت کے کورٹ میں ہے۔ ‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں