1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں جرمن فوجی کی ہلاکت: نئے پریشان کن حقائق

21 جنوری 2011

وفاقی جرمن فوج کی قیادت ان دنوں کئی واقعات کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہے۔ افغانستان سے آنے والی فوجیوں کی ڈاک متعدد مرتبہ بلا اجازت کھولی گئی اور جزوی طور پر تلف کر دی گئی۔

https://p.dw.com/p/100UF
گزشتہ دسمبر میں چانسلر میرکل قندوز میں جرمن فوجیوں سے گفتگو کرتے ہوئے

جرمن بحریہ کے ایک تربیتی بحری جہاز پر ایک خاتون فوجی کی موت کے بعد جہاز کے مستقل عملے اور نوجوان زیر تربیت افسروں کے مابین جھگڑے بھی ہوئے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں ایک جرمن فوجی نے مبینہ طور پر اپنے ہی ایک ساتھی کو گولی مار دی۔

Hörsaal der Helmut-Schmidt-Universität der Bundeswehr in Hamburg
ہیمبرگ میں قائم فیڈرل آرمی یونیورسٹی کا ایک کلاس رومتصویر: Fotolabor HSU HH

گزشتہ کرسمس سے کچھ ہی عرصہ قبل افغانستان میں جو جرمن سپاہی ہلاک ہوا تھا، وہ ایک فوجی چوکی پر گولی لگنے سے زخمی ہوا تھا۔ شروع میں بتایا گیا تھا کہ وہ مبینہ طور پر اپنے پاس موجود آتشیں ہتھیار صاف کرتے ہوئے اچانک گولی چلنے سے زخمی ہو گیا تھا۔ اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس 21 سالہ فوجی کو اس کے ایک ساتھی کی بندوق سے چلنے والی گولی لگی تھی۔

جرمن ذرائع ابلاغ میں آتشیں ہتھیاروں سے کھیلے جانے والے کھیلوں کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال وفاقی جرمن فوج کے لیے انتہائی پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔ شروع میں تو اس بارے میں جرمن پارلیمان کی دفاعی امور سے متعلقہ کمیٹی کو بھی کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔

اس کمیٹی کے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے ایک رکن رائنر آرنولڈ نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’قندوز میں فرائض انجام دینے والے ایک جرمن فوجی کی ہلاکت اسلحے کی صفائی کے دوران پیش آنے والے ایک المناک واقعے کا نتیجہ تھی۔ واضح الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ دفاعی امور سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کو بھی غلط معلومات فراہم کی گئی تھیں۔‘‘

جرمن وزارت دفاع نے چانسلر میرکل کے دورہء قندوز سے قبل پیش آنے والے اس واقعے کی تفصیلات کو چھپایا کیوں؟ وفاقی وزیر دفاع سوگٹن برگ کہتے ہیں اس لیے کہ چھان بین ابھی جاری ہے۔ وہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ وہ حقائق چھپانا چاہتے تھے۔

Rainer Arnold
جرمن پارلیمان کی دفاعی امور سے متعلقہ کمیٹی کے سوشل ڈیموکریٹ رکن رائنر آرنولڈتصویر: picture alliance / dpa

سوگٹن برگ کے بقول، ’’اس میں مبینہ طور پر ایک دوسرا جرمن فوجی بھی ملوث تھا، یہ بات اس واقعے کے اگلے ہی روز منظر عام پر آ چکی تھی۔ اس کے فوری بعد اس چھان بین میں دفتر استغاثہ بھی شامل ہو گیا تھا۔ استغاثہ کی طرف سے تحقیقات جاری ہیں اور اب نتائج آنے کا انتطار کیا جا رہا ہے۔‘‘

وفاقی مخلوط حکومت میں شامل ترقی پسندوں کی جماعت ایف ڈی پی کی دفاعی امور کی ماہر خاتون سیاستدان ایلکے ہوف کی رائے میں وفاقی جرمن فوج میں نظر آنے والے یہ تازہ واقعات غالباﹰ اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ چند سینئر افسروں کو یہ علم ہی نہیں کہ اپنے ماتحت انسانوں کی قیادت کس طرح کی جاتی ہے۔

ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والے وفاقی پارلیمان کے رکن رائنر آرنولڈ کے بقول فیڈرل جرمن آرمی میں بظاہر ایسے عناصر بھی موجود ہیں، جو یہ چاہتے ہیں کہ پریشان کن اور تکلیف دہ ثابت ہونے والے حقائق کو جہاں تک ممکن ہو، چھپایا جائے۔

رائنر آرنولڈ کہتے ہیں کہ اگر جرمن عوام کو یہ تاثر ملنے لگا کہ وفاقی فوج میں حقائق کو چھپایا جاتا ہے، تو اس کا طویل المدتی بنیادوں پرکہیں زیادہ نقصان ہو گا۔ اس لیے یہ بات وفاقی فوج کے بھی حق میں ہے کہ اس کے بارے میں مکمل شفافیت اور کھلے پن سے کام لیا جائے۔

رپورٹ: نینا ویرک ہوئزر / مقبول ملک

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں