1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

افغانستان میں امریکی صحافی کا مبینہ اغواکار گرفتار

29 اکتوبر 2020

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ 2008 میں ایک امریکی صحافی اور دو افغان شہریوں کے اغوا کا جس شخص پر الزام ہے، انہیں یوکرین سے گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3ka1Y
David Rohde
نیویارک ٹائمز کے لیے کام کرنے والے امریکی صحافی ڈیوڈ روڈ کو بندوق کی نوک پر اغوا کیا گیا تھاتصویر: Vadim Ghirda/AP/picture alliance

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ 2008 میں نیو یارک ٹائمز کے ایک امریکی صحافی اور دو افغان شہریوں کو اغوا کرنے کا، حاجی نجیب اللہ نامی جس افغان شہری پر الزام تھا ان پر مقدمہ چلانے کے لیے امریکا کے حوالے کیا گیا ہے۔  نیویارک ٹائمز کے لیے کام کرنے والے امریکی صحافی ڈیوڈ روڈ کو بندوق کی نوک پر اغوا کیا گیا تھا اور تقریبا ًسات ماہ تک وہ ان کی قید میں رہے تھے۔

اس کیس کے انچارج پروسکیوٹر آڈری اسٹراس کا کہنا تھا کہ 44 سالہ حاجی نجیب اللہ نے ایک امریکی صحافی اور دو دیگر افراد کو بندوق کی نوک پر اغوا کرنے کا بندوبست کیا اور سات ماہ سے زیادہ عرصے تک انھیں یرغمال بنا کر رکھا۔'' یہ مقدمہ مینہیٹین کی وفاقی عدالت میں چلے گا جہاں ان پر چھ الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

حکام نے اس سلسلے میں اغوا کیے جانے والے متاثرین کی شناخت نہیں کی ہے تاہم جو تفصیلات بتائی گئی ہیں وہ اس وقت نیو یارک ٹائمز کے لیے کام کرنے والے امریکی صحافی ڈیوڈ روڈ اور افغان صحافی طاہر لودین کے اغوا کے واقعے سے ہوبہو میل کھاتی ہیں۔ یہ دونوں صحافی ایک طالبان رہنما کا انٹرویو کرنے جا رہے تھے تبھی انہیں اغوا کرلیا گیا تھا۔

 ڈرامائی طور پر فرار

دونوں صحافیوں کو 10 نومبر 2008 میں اغوا کیا گیا تھا اور پاکستان کے قبائلی علاقے میں واقع ایک عمارت کے اندر سات ماہ یرغمال رہنے کے بعد دونوں ڈرامائی طور پر قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ان دونوں کے فرار ہونے کے بعد ان کا ڈرائیور اسداللہ بھی چند روز بعد حاجی نجیب اللہ کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب رہا تھا۔

Tahir Ludin
ڈیوڈ روڈ کے ساتھ ہی افغان صحافی طاہر لودین کو بھی اغوا کر لیا گيا تھا تصویر: Rahim Faiez/AP/picture alliance

عدالت میں جو الزامات عائد کیے گئے ہیں ان کے مطابق نجیب اللہ مشین گنوں سے سے لیس ان سات اغواکاروں میں سے ایک تھے جو اغوا کرنے کے پانچ روز بعد انہیں سرحد پار کروا کے پاکستان لے آئے تھے۔ اس کیس کے تحت جو الزامات عائد کیے گئے اس کے مطابق اغوا

 کے دوران نجیب اللہ اور ان کے ساتھیوں نے امریکا سے طالبان جنگجووں کی رہائی اور بطور تاوان پیسوں کے مطالبے کے لیے صحافی ڈیوڈ روڈ سے متعدد بار ان کے اہل خانہ کو فون کالز کروائیں اور ویڈیوز بھیجوائیں تھیں۔

ایک سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ نجیب اللہ پر امریکا میں مقدمہ چلانے کے لیے انہیں گزشتہ منگل کو یوکرین سے امریکا لایا گیا تھا۔ ان پر اغوا کرنے، سازش کرنے اور یرغمال بنانے جیسے الزامات کے تحت مقدمہ چلے گا۔ حکام نے ایسی کوئی تفصیل نہیں بتائی کہ ان کی گرفتاری کہاں سے ہوئی یا پھر وہ  اتنے برسوں بعد کیسے ہاتھ لگے۔

محکمہ نیشنل سکیورٹی میں معاون اٹارنی جنرل جان سی ڈیمریز کا کہنا تھا، ''صحافی اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر متنازعہ علاقوں سے ہمیں خبریں پہنچاتے ہیں، اور اس سے قطع نظر کہ کتنا وقت گزرچکا ہے، ایسے افراد کو نقصان پہنچانے والے یا پھر دیگر امریکی شہریوں کو نشانہ بنانے والے افراد کا تعاقب کرنے اور ان کا احتساب کرنے میں ہمارے عزم و حوصلے کبھی پست نہیں ہوں گے۔''

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)

افغانستان میں طالبان کی قیادت میں زندگی کیسی ؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں