1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان میں افیون کی بجائے گلاب

کائی کيوسٹنر، نئی دہلی / شہاب احمد صديقی25 مئی 2009

افغانستان ميں افيون کی کاشت طويل عرصے سے ايک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ 2004 سے ايک جرمن امدادی تنظيم نے افغان کاشتکاروں کے لئے افيون کی کاشت کے متبادل کے طور پر گلاب کے پھول اگانے کا منصوبہ شروع کيا ہے۔

https://p.dw.com/p/HxGz
افغانستان میں افیون کی کاشت دنیا بھر کے لئے تشویش کا باعث رہی ہےتصویر: dpa

افغانستان ميں جنگ وخونريزی کے مناظربرسوں سے اتنےعام ہيں کہ کوئی خوشگوار منظر ديکھنے کی اميد کم ہی کی جاتی ہے ليکن جرمن امدادی تنظيم brot für die welt ،يعنی’’ دنيا کے لئے روٹی‘‘ کی طرف سے جن مقامات پر گلاب کے پھول اگانے کا منصوبہ جاری ہے، وہاں خوبصورت پھول اپنی بہار دکھا رہے ہيں۔ يہ منصوبہ، مشرقی افغانستان ميں شروع کيا گيا ہے، جہاں مسلسل زيادہ کاشتکار اس ميں حصہ لے رہے ہيں۔

حکومت اور طالبان کے درميان جاری خونی جنگ سے بچنے کے لئے کئی خاندان دوسرے علاقوں سے بھی يہاں آ گئے ہيں ۔ گلاب کے پھول کے باغ سے انہيں روزانہ ايک دوڈالر کی آمدنی ہوجاتی ہے جو ان کے زندہ رہنے کے لئے کافی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت گلاب کے پھول سے پانچ سو افراد کو براہ راست آمدنی ہورہی ہے۔جرمن امدادی تنظيم کی طرف سے اس منصوبے کے نگران Norbert Burger نے کہا کہ جب وہ پانچ سال پہلے گلاب کے پھول اگانے کے اس منصوبے کی تجويز لے کر يہاں کاشتکاروں کے پاس آئے تھے ، تو اُن ميں سے بہت سوں نے يقينا اسے جرمنوں کا ايک خبط سمجھا ہوگا۔

’’کوئی بھی کسان يہ نہيں سمجھ پارہا تھا کہ ہم آخرکيوں گلاب اگانا چاہتے تھے۔ ويسے يہ تو ہے کہ کوئی بھی مسلمان گلاب کے پھول کو قدموں سے روندتا ہوا نہيں گذر جاتا،بلکہ پھول کو بڑی احتياط سے اٹھايا جاتا ہے اور پھر اس کی خوشبو کو بار بار سونگھا جاتا اور اس سے نشاط حاصل کی جاتی ہے۔‘‘

Mohnanbau in Afghanistan
جرمن امدادی تنظیم افیون کی جگہ گلاب کی کاشت کی ترغیب دے رہی ہےتصویر: dpa

گلاب کی خوبصورتی سے مسحور ہونے والوں ميں سے ايک ، کاشتکار نادرخان ہيں۔

آج وہ ،گلاب کے علاوہ گيہوں بھی اگا رہے ہيں۔ايک سال قبل يہاں افيون کی کاشت کی جاتی تھی۔ نادرخان نے کہا کہ افيون انسانوں کے لئے بہت مضر ہے اور قرآن ميں اس سے منع کياگيا ہے۔ اگر کاشتکار اس کے باوجود بھی افيون کاشت کرتے ہيں ، تو اکثر وہ يہ ضمير کی چبھن اور بوجھ کے ساتھ ہی کرتے ہيں اور اس لئے کہ ان کے پاس اور کوئی ذريعہ آمدنی نہيں ہے۔اس لئے يہ ضروری ہے کہ اگر انہيں کوئی متبادل فراہم کيا جائے ،تو وہ مالی لحاظ سے کم از کم ايک حد تک اچھا ہونا چاہئے۔

گلاب کے باغات ميں جومنظر دکھائی ديتا ہے وہ يہ ہے کہ کاشتکار بہت بڑے بڑے ديگچوں ميں گلاب کے پھول لے جاتے نظر آتے ہيں۔ان گلابوں سے گلاب کا تيل نکالا جاتا ہے۔ايک کسان نے کہا کہ اس وقت گلاب کی کاشت خاصی منافع بخش ہے ۔ اس کی قيمت مستحکم ہے جبکہ افيون کی قيمت ميں بہت اتارچڑھاؤ ہوتا رہتا ہے۔گلاب کے صرف تين ملی لٹرتیل کی قيمت تقريبا ستائيس ڈالر ہے۔

ننگر ہار کا صوبہ ، جہاں گلاب کے پھولوں کا يہ منصوبہ جاری ہے ، افغانستان کے مشرق ميں واقع ہےجو ايک خطرناک علاقہ ہےاور پاکستان کی سرحد سے ملتا ہے۔اس کے باوجود اس علاقے کو ايک سال کے اندر افيون سے پاک کرنے ميں کاميابی ہوئی ہے۔اس کا سہرا،ننگر ہار صوبے کے طاقتور گورنر کے سر ہے جنہوں نے کاشتکاروں کو پيسوں کے ساتھ ساتھ انہيں سخت سزا کی دھمکيوں کے ذريعے افيون کی کاشت سے باز آنے پر مجبور کيا۔

جرمن امدادی تنظيم کے گلاب کے پھولوں کے منصوبے کے نگران Burger نے کہا : ’’ ہم افغانستان ميں گلاب کی کاشت کے رقبے ميں اضافے کی کوشش کررہے ہيں۔اس وقت يہ کاشت ساٹھ ہيکٹر پر ہے۔ ہم اسے بڑھا کر پانچ سو ہيکٹر تک لانا چاہتے ہيں۔ليکن يہ تقريبا آخری حد ہوگی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ان کی امدادی تنظيم افغانستان کے تمام کاشتکاروں کو افيون کے بجائے گلاب اگانے کی ترغيب دينا چاہتی ہے۔اس طرح افيون کے شديد مسئلے کو حل کيا جاسکتا ہے۔ Burger ، گلاب کی کاشت کے منصوبے کو اس مسئلے کے حل ميں ايک چھوٹا قدم سمجھتے ہيں،کيونکہ صرف اس طرح افيون کے گھمبير مسئلے کو قابل حل سمجھنا سادہ لوحی ہوگی۔ تاہم بہت سے دوسرے اقدامات کے ساتھ ساتھ گلاب کا منصوبہ يقينا مددگار ہوسکتا ہے۔يوں، گلاب کے ساتھ يا اس کے بغير، افغانستان کو ابھی ايک لمبا اور کٹھن راستہ طے کرنا ہے۔