1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان: اجتماعی قبر دریافت، 12 افراد کی باقیات برآمد

27 ستمبر 2022

طالبان حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سرحد سے متصل اسپن بولدک کے ایک قصبے میں ایک اجتماعی قبر دریافت ہوئی ہے جس میں بارہ افراد کی باقیات ملی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4HO8l
(علامتی تصویر)
(علامتی تصویر)تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai

یہ اجتماعی قبر دیہاتیوں کو گذشتہ چند دنوں کے دوران پاکستان کی سرحد سے متصل اسپن بولدک کے ایک قصبے میں ملی۔ یہ قصبہ وہی مقام ہے جہاں گزشتہ برس افغانستان پر طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے سے قبل افغانستان کی سابق حکومت کی فوج اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان شدید لڑائی ہوئی تھی۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ اجتماعی قبر میں دفن لوگ نو سال قبل اس وقت مارے گئے تھے جب امریکی حمایت یافتہ حکومت برسراقتدار تھی، لیکن اس جگہ آزادانہ چھان بین نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا، "یہ وہ لوگ تھے جنہیں سابق ظالم کمانڈر جنرل رازق نے دیہات سے گرفتار کیا تھا۔ یہ تمام عام شہری تھے جنہیں قتل کر کے اجتماعی قبر میں دفن کر دیا گیا۔"

افغان فورسز کے حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین

ذبیح اللہ مجاہد قندھار پولیس کے سابق سربراہ کا حوالہ دے رہے تھے، جو طاقت ور کمانڈر تھے اور جنہیں 20 سالہ جنگ کے دوران طالبان کے خلاف مؤثر لڑائیوں کے لیے جانا جاتا ہے۔

فرانزک جانچ کا مطالبہ

طالبان حکومت کے ترجمان کا کہنا تھا، "ہم اس اجتماعی قبرکے معاملہ کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس کے بعد ہم یہ فیصلہ کریں گے کہ کس طرح کی تحقیقات ہونی چاہیے۔"

صوبہ قندھار کے گورنر کے ترجمان حاجی زید کا کہنا ہے کہ اجتماعی قبر سے ملنے والی تمام باقیات کو قریب ہی دوبارہ دفن کر دیا گیا ہے۔ ان میں ایک اور شخص کی باقیات شامل ہیں جن کی علیحدہ قبر پر کوئی نشانی موجود نہیں تھی۔

افغانستان میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینٹ نے اپنی ٹویٹ میں کہا، "یہ ضروری ہے،ان باقیات کے ساتھ چھیڑچھاڑ نہ کی جائے اور فرانزک جانچ تک انھیں مزید نقصان نہ پہنچایا جائے۔"

افغانستان میں طالبان کی اجتماعی قبر، اوباما کی طرف سے تفتیش کا وعدہ

طالبان حکام نے سوشل میڈیا پر ویڈیوز شیئر کی ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دیہاتی ہڈیوں کے ڈھیروں کے اردگرد جمع ہیں۔

Afghanistan | Kämpfe zwischen Armee und Taliban
تصویر: AA/picture alliance

جنرل عبدالرزاق کون تھے؟

جنرل عبدالرازق کو اکتوبر 2018 میں افغانستان میں اس وقت کے اعلیٰ امریکی کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر سے ملاقات کے چند منٹ بعد ایک محافظ نے گولی مار کرہلاک  کر دیا تھا۔

طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے رزاق کو نشانہ بنایا جن کی شہرت قندھار اور ہمسایہ صوبوں میں ایک بے رحم مخالف کے طور پر تھی۔

رزاق کے بھائی تدین خان نے طالبان کے الزامات کو مسترد کر دیا۔ متحدہ عرب امارات سے اے ایف پی کے ساتھ ٹیلی فون پر مختصر بات چیت میں تدین خان کا کہنا تھا "یہ ہمارے خاندان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔"

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے ان ہلاکتوں کی تحقیقات پر زور دیا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ  کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریشیا گروسمین نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ "قبر کے مقامات دریافت ہونے سے یہ زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ حکام انتقامی کارروائیاں روکیں۔"

طالبان نے گذشتہ سال 15 اگست کوامریکہ کی قیادت میں عالمی فوج کے عجلت میں انخلا کے بعد کابل میں اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور سابق صدراشرف غنی کی حکومت کے تحت سرکاری اہلکاروں اور فوجی دستوں نے شہروں کوخالی کر دیا تھا، لیکن اسپن بولدک اوراس کے آس پاس

 کے علاقوں میں دونوں فریقوں کے درمیان مہلک جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں۔ امریکی اور برطانوی حکام نے طالبان پر متعدد سابق حکومتی اہلکاروں اور ان کے رشتہ داروں کو قتل کرنے کا الزام بھی لگایا تھا۔

 ج ا/ ص ز (اے ایف پی)