1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان وزیر خارجہ بھارت میں

جاوید اختر، نئی دہلی
23 مارچ 2021

افغان وزیر خارجہ ایسے وقت بھارت کے دورے پر ہیں، جب چند دنوں قبل ہی روس میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔ دوسری طرف امریکا، افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے بھارت کے وسیع تر کردار کا خواہاں ہے۔

https://p.dw.com/p/3qzK5
Afghanistan Sicherheitsspitze tritt zurück | Nationaler Sicherheitsberater Mohammad Hanif Atmar
تصویر: picture-alliance/dpa/TASS/A. Korotayev

افغانستان کے وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر ایک اعلی سطحی وفد کے ساتھ ان دنوں بھارت کے تین روز ہ دورے پر ہیں۔افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء اور جنگ زدہ ملک میں قیام امن میں بھارت کے وسیع تر کردار کے حوالے سے صدر جو بائیڈن کے نئے موقف کے تناظر میں اس دورے کو اہم قرار دیا جارہا ہے۔

محمد حنیف اتمر نے اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر کے ساتھ پیر کے روز افغانستان میں امن مساعی سمیت متعدد امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ بھارتی وزیر خارجہ نے ایک ٹوئٹ کر کے کہا، ”افغانستان کے وزیر خارجہ حنیف اتمر کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ دیرپا قیام امن کے موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ہم نے باہمی تعاون ترقی میں شراکت کے سلسلے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔“

بھارتی وزارت خارجہ کے نئے ترجمان اریندم باگچی نے کہا کہ دونوں رہنماؤں نے باہمی اور علاقائی دلچسپی کے امور کے علاوہ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری، علاقائی کنکٹی ویٹی، سکیورٹی تعاون اور  دیرپا امن کے موضوعات پر تفصیلی بات چیت کی۔

افغان امن کے قیام کی کوششیں

افغان وزیر خارجہ کا یہ دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے، جب چند روز قبل ہی روس کی میزبانی میں ماسکو میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ایک کانفرنس ہوئی تھی جس میں شریک دیگر ممالک نے جنگ زدہ ملک میں فوراً جنگ بندی کی اپیل کی تھی۔

حالیہ ہفتوں میں افغانستان میں امن کے قیام کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی کوششیں تیز ہو گئی ہیں کیونکہ ملک میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہونے سے حالات مزید ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔

گزشتہ سنیچر کو بھارت کے دورے پر آئے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے ساتھ ایس جے شنکر کی بات چیت میں بھی افغان امن عمل پر بات چیت ہوئی تھی۔جوبائیڈن انتظامیہ چاہتی ہے کہ بھارت، افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے زیادہ وسیع کردار ادا کرے۔

بھارتی وزیر خارجہ نے اس ماہ کے اوائل میں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کے ساتھ بات چیت کی تھی۔

طالبان اور امریکا کی ڈیل سب کی کامیابی ہے، شاہ محمود قریشی

بھارت کا موقف

بھارت کا موقف ہے کہ افغانستان میں امن اور مفاہمت کا عمل افغان عوام کی طرف سے ہونا چاہیے، جس پر افغان عوام کا کنٹرول ہو اور کوئی دوسرا ملک اس میں مداخلت نہ کرے۔ بھارت فروری 2020ء میں ٹرمپ انتظامیہ اور طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کے بعد سے ہی ابھرتی ہوئی سیاسی صورت حال پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

بھارت بارہا یہ اپیل کرتا رہا ہے کہ افغانستان کے تمام طبقات خوشحالی اور محفوظ مستقبل کی امنگوں کو پورا کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔

کابل کی خودکفیل خواتین

بھارت کے اقدامات

بھارت افغانستان کی ترقی کے لیے مختلف منصوبوں میں تعاون کر رہا ہے۔ بھارت وہاں اب تک مختلف تعمیراتی سرگرمیوں میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔ گزشتہ نومبر میں بھی اس نے افغانستان میں آٹھ کروڑ ڈالر کی لاگت سے ایک سو سے زائد کمیونٹی پروجیکٹوں کے نئے پیکج کا اعلان کیا تھا۔

حالیہ عرصے میں بھارت اور افغانستان کے درمیان قربت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ اکتوبر میں افغان قومی مفاہمت کی اعلی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ بھارت آئے تھے جبکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ماہ افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ایک ورچوئل میٹنگ کی تھی۔

افغان وزیر خارجہ کے دورے کی اہمیت

بھارت میں سفارتی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ افغانستان امن کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں، افغان وزیر خارجہ کا نئی دہلی کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

افغانستان میں بھارت کے سابق سفیر گوتم مکھوپادھیائے نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایک متوازن نتیجے کے لیے بھارت کا امن عمل میں شریک ہونا بہت ضروری ہے۔

مکھوپادھیائے کا کہنا تھا ”دیگر ملکوں کے برخلاف بھارت اسلامی جمہوریہ کے ساتھ تعلقات ختم کرنا نہیں چاہتا۔ بھارت طالبان کے ساتھ بھی بات چیت کا خواہش مند ہے تاکہ قیام امن کے حوالے سے کوئی بہتر معاہدہ ہو سکے۔ بھارت گزشتہ ستمبر میں دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں شریک ہو کر اور اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرکے  یہ عندیہ بھی دے چکا ہے۔

افغان وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر دہلی میں اپنے تین روزہ قیام کے دوران کابل میں سابق بھارتی سفیروں، یہاں مقیم افغان طلبہ او ر تاجروں کے علاوہ بھارت میں پناہ لیے ہوئے افغان ہندوؤں اور سکھ کمیونٹی کے افراد سے بھی ملاقات کریں گے۔وہ بھارت کے قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال کے ساتھ بھی تبادلہ خیال کریں گے۔

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں