1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان مہاجرین يورپ ميں خوش آمديد نہيں، تبصرہ

7 مارچ 2020

ان دنوں يونان اور ترکی کی سرحد پر ہزاروں تارکين وطن موجود ہيں جن کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ يورپ ميں داخل ہو سکيں۔ ان ميں شامی مہاجرين کی تعداد بہت کم جبکہ افغان شہريوں کی تعداد بہت زيادہ ہے۔

https://p.dw.com/p/3Z1HK
Türkei Edirne Migranten an der Grenze zu Griechenland
تصویر: Getty Images/B. Kara

ترکی اور يونان کی سرحد پر يورپ ميں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تارکين وطن ميں شامی شہريوں کی تعداد کم اور افغان باشندوں کی تعداد بہت زيادہ ہے، جس کی دو وجوہات ہيں۔ ايک تو يہ کہ جو شامی پناہ گزين پچھلے چند برسوں سے ترکی ميں مقيم ہيں، اگر وہ غير قانونی انداز سے يورپ ہجرت کرتے ہيں تو ان کا کافی کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے۔ اس کے برعکس ايران، پاکستان اور خاص طور پر افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکين وطن کا ايسے کرنے سے کچھ نہيں جاتا۔ شامی شہری عموماً اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتے ہيں۔ جبکہ ترکی ميں پھنسے ہوئے افغان مہاجرين کی اکثريت تنہا سفر کرنے والے نوجوان مرد ہيں، جو بس وہاں سے نکلنا چاہتے ہيں۔

مہاجرين کے بحران ميں تازہ ترين صورتحال اس بحران کے ايک اور پہلو کی نشاندہی کرتی ہے۔ ترکی ميں صرف شامی شہريوں ہی نے پناہ نہيں لے رکھی بلکہ يہ ملک، ديگر کئی ملکوں کے تارکين وطن کے ليے ايک 'ٹرانزٹ اسٹيشن‘ کی حيثيت بھی رکھتا ہے۔ يعنی ترکی ميں کئی ايسے تارکين وطن ہيں، جو کبھی وہاں رہنا چاہتے ہی نہيں تھے اور ان کی حتمی منزل ہميشہ ہی سے صرف يورپ ہی ہے۔

اندازوں کے مطابق ترکی ميں اس وقت رجسرڈ اور غير رجسٹرڈ مہاجرين کی مجموعی تعداد پانچ ملين کے لگ بھگ ہے۔ يہ ترکی کی آبادی کے چھ فيصد کے برابر ہے۔ دنيا ميں چند ہی ايسے ممالک ہيں جہاں مقامی آبادی کے مقابلے ميں مہاجرين کا تناسب اس قدر زيادہ ہے۔ ترکی ميں رجسٹرڈ شامی پناہ گزينوں کی تعداد 3.6 ملين ہے جبکہ دوسرا سب سے بڑا گروپ افغان مہاجرين کا ہے۔ وہاں قيام پذير افغان تارکين وطن کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ تيسرے نمبر پر ايرانی شہری ہيں، جن کی تعداد قريب بيس ہزار بنتی ہے۔

ترک حکام کے ليے 'غير ضروری‘ افغان باشندوں سے نمٹنا ہوا کے رخ کے خلاف کام کرنے کے مساوی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پچھلے سال غير قانونی طريقے سے ترکی ميں داخل ہونے والے دو لاکھ افغان شہريوں کو ملک بدر کيا گيا۔

ترکی اور شام کی سرحد کے اکثريتی حصے پر اب ايک ديوار کھڑی ہے۔ پچھلے چند ماہ سے ترکی نے ايران سے ملنے والی سرحد پر بھی پوليس کی نفری بڑھا دی ہے۔ افغانستان، پاکستان اور ايران کے تارکين وطن اسی راستے سے ترکی ميں داخل ہوتے ہيں۔ يہ پہاڑی علاقہ ہے اور اس کی نگرانی بھی ايک مشکل کام ہے۔

افغان شہری ترکی کو ايک ٹرانزٹ ملک يا عارضی قیام گاہ کے طور پر ديکھتے ہيں۔ ترکی ميں موجود شامی شہريوں کہ نہ صرف انقرہ حکومت سے مدد ملتی ہے بلکہ يورپی يوين اور کئی بين الاقوامی ادارے بھی اس سلسلے ميں متحرک ہيں۔ اس کے برعکس ديگر ملکوں کے تارکين وطن کسی قسم کی مدد کے مستحق نہيں اور انہيں اپنی ديکھ بھال خود ہی کرنی پڑتی ہے۔ ترکی ميں سياسی پناہ بھی صرف شامی اور عراقی شہريوں کو دی جاتی ہے۔ افغان باشندوں کے ليے وہاں کسی قسم کی کوئی مدد نہيں۔ یہ افغان پناہ گزین وہاں ملازمت نہییں کر سکتے ہيں اور نہ ہی قانونی طور پر رہائش حاصل کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ دستاويزات کے بغير صحت اور تعليم کی سہوليات بھی انہيں ميسر نہيں۔ حد سے حد انہيں ترکی ميں عارضی پناہ مل جاتی ہے، جس سے وہ چند نجی تنظيموں سے مدد لے سکتے ہيں۔

يہی وجہ ہے کہ افغان شہريوں کے ليے ترکی ميں کچھ نہيں۔ يہ بھی حقيقت ہے کہ وہاں موجود بیشتر افغان شہری رہنا بھی نہيں چاہتے۔ اسی ليے جب ترک صدر رجب طيب ايردوآن نے حال ہی ميں اعلان کيا کہ يورپ جانے کے خواہشمند افراد کو روکا نہيں جائے گا تو افغان تارکين وطن نے اسے ایک نادر موقع کے طور پر لیا۔ ليکن ان کے لیے اگلا ايک اور کٹھن مرحلہ يونان ميں داخلے کا ہے۔

رائنر حرمان: ترجمہ عاصم سليم / ش ح