1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان کے وفد کا دوبارہ دورہ چین، ذرائع

امتیاز احمد30 جولائی 2016

افغان طالبان کے ایک وفد نے ایک مرتبہ پھر چین کا دورہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق مغرب کی حمایت یافتہ کابل حکومت کے خلاف لڑنے والے طالبان کے اس دورے کا مقصد افغانستان کی موجودہ صورتحال سے متعلق مذاکرات کرنا تھے۔

https://p.dw.com/p/1JZ2c
Afghanistan Taliban
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer

نیوز ایجنسی روئٹرز نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغان طالبان کے ایک وفد نےعباس ستانکزئی کی قیادت میں رواں ماہ کے آغاز پر چین کا دورہ کیا ہے۔ عباس ستانکزئی قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ہیں۔ طالبان کے ایک سینئر رہنما کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ یہ وفد اٹھارہ سے بائیس جولائی تک دارالحکومت بیجنگ میں رہا جبکہ طالبان کو اس دورے کی دعوت چینی حکومت کی طرف سے دی گئی تھی۔

روئٹرز نے طالبان کے اس سینئر رہنما کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، ’’مختلف ممالک کے ساتھ ہمارے بہت ہی اچھے تعلقات ہیں اور چین ان میں سے ایک ہے۔‘‘

اس طالبان کمانڈر کا مزید کہنا تھا، ’’ہم نے چینی حکام کو جارحیت پسند اور قابض فوجوں کے بارے میں اور ان کی طرف سے افغان عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کے متعلق بتایا ہے۔‘‘

Afghanistan Taliban-Führer Akhtar Mohammed Mansur durch Drohne getötet
امن مذاکرات کا سلسلہ اس وقت ٹوٹ گیا تھا، جب طالبان کے سابق سربراہ ملا محمد اختر منصور کو مبینہ طور پر ایران سے پاکستان آتے ہوئے امریکا نے ایک ڈرون حملے کے ذریعے ہلاک کر دیا تھاتصویر: Reuters

اس دورے کے مقصد کے بارے میں اس لیڈر کا مزید کہنا تھا، ’’ہم چاہتے ہیں کی چینی قیادت ہماری مدد کرے اور اس مسئلے کو دنیا کے مختلف فورمز پر اٹھایا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ چین قابض فوجوں سے آزادی کے لیے ہماری مدد کرے۔‘‘

اسی طرح طالبان کے ایک دوسرے سینئر رہنما نے بھی روئٹرز کو ان خبروں کی تصدیق کی ہے۔ اس طالبان لیڈر کا بھی کہنا تھا کہ اس کا نام شائع نہ کیا جائے کیوں کہ ابھی تک قطر میں ان کے سیاسی دفتر کی جانب سے انہیں باقاعدہ طور پر میڈیا سے گفتگو کی اجازت نہیں ملی ہے۔ دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ نے بھی ابھی تک اس ملاقات کی تصدیق نہیں کی ہے۔

پاکستان، امریکا، چین اور افغانستان اس چہار فریقی گروپ کا حصہ ہیں، جس نے رواں برس کے آغاز پر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کرنے کی کوششیں شروع کی تھیں۔

لیکن ان کوششوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا تھا اور امن مذاکرات کا سلسلہ اس وقت ٹوٹ گیا تھا، جب طالبان کے سابق سربراہ ملا محمد اختر منصور کو مبینہ طور پر ایران سے پاکستان آتے ہوئے امریکا نے ایک ڈرون حملے کے ذریعے ہلاک کر دیا تھا۔

دوسری جانب طالبان اس کوشش میں بھی ہیں کہ وہ افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کو یہ یقین دلائیں کہ وہ ان کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔ ماضی میں طالبان یہ بیان بھی جاری کر چکے ہیں کہ وہ اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔