1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان طالبان کے ساتھ امریکی رابطوں میں تیزی

17 مئی 2011

امریکی جریدے ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے آج منگل کو اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں دَس سال سے جاری جنگ کے کسی سیاسی تصفیے کے لیے افغان طالبان کے ساتھ براہِ راست روابط تیز تر کر دیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/11Ham
تصویر: picture-alliance/dpa

رپورٹ کے مطابق ایک امریکی نمائندے نے قطر اور جرمنی میں کم از کم تین ملاقاتیں کی ہیں، جن میں ’آٹھ یا نو دن پہلے‘ طالبان کے ایک ایسے نمائندے کے ساتھ ہونے والی ملاقات بھی شامل ہے، جو طالبان کے لیڈر ملا محمد عمر کا ایک بہت ہی قریبی ساتھی تصور کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بات ایک افغان سرکاری عہدیدار کے حوالے سے بتائی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2014 تک امن و امان کی تمام تر ذمہ داریاں افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کرنے کے عمل کے دوران اِس سال جولائی میں امریکی صدر باراک اوباما افغانستان سے امریکی فوجی دستوں کے ایک حصے کے انخلاء کا اعلان کرنے والے ہیں۔ واشنگٹن حکومت اس اعلان سے پہلے پہلے طالبان کے ساتھ اتفاقِ رائے کے معاملے میں کسی نہ کسی پیشرفت کی امید کر رہی ہے۔

افغان اور امریکی صدور کی کوشش ہے کہ طالبان کی مدد سے دَس سال سے افغانستان میں جاری جنگ کا کوئی سیاسی حل نکالا جائے
افغان اور امریکی صدور کی کوشش ہے کہ طالبان کی مدد سے دَس سال سے افغانستان میں جاری جنگ کا کوئی سیاسی حل نکالا جائےتصویر: AP

یہ رپورٹ پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں امریکی خصوصی فوجی دستوں کے ہاتھوں القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے دو ہفتے سے زیادہ عرصے بعد سامنے آئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں بن لادن کی ہلاکت کے بعد افغانستان میں کسی سیاسی تصفیے کی راہ ہموار ہو گئی ہے اور طالبان کے لیے القاعدہ کے ساتھ روابط ختم کرنا اب ممکنہ طور پر زیادہ آسان ہو گیا ہو گا۔

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق طالبان کے نمائندوں کے ساتھ حالیہ امریکی ملاقاتیں غیر سرکاری ثالثوں اور عرب اور یورپی حکومتوں کے توسط سے عمل میں آئی ہیں۔ جریدے کے مطابق طالبان امریکیوں کے ساتھ براہِ راست مذاکرات پر اصرار کر رہے تھے اور اُن کی تجویز ہے کہ وہ ممکنہ طور پر اپنا ایک دفتر غالباً قطر میں قائم کر سکتے ہیں۔

مذاکرات کے سلسلے میں امریکہ ان طالبان کو اہمیت دے رہا ہے، جو ملا محمد عمر یا پھر اُس کی غالباً پاکستان میں قائم شوریٰ کو جوابدہ ہیں
مذاکرات کے سلسلے میں امریکہ ان طالبان کو اہمیت دے رہا ہے، جو ملا محمد عمر یا پھر اُس کی غالباً پاکستان میں قائم شوریٰ کو جوابدہ ہیںتصویر: AP

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان نے ان مذاکرات میں، جو ابھی اپنے انتہائی ابتدائی مرحلے میں ہیں، مطالبات کی ایک طویل فہرست امریکیوں کے حوالے کی ہے، جس میں گوانتانامو میں قید تقریباً بیس جنگجوؤں کی رہائی کے ساتھ ساتھ افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجی دستوں کے انخلاء اور حکومت میں طالبان کو ایک اہم کردار دینے کی ضمانت جیسے مطالبات بھی شامل ہیں۔

جواب میں افغان اور امریکی حکومتیں طالبان سے یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ تمام تر پُر تشدد سرگرمیاں ترک کر دیں، افغان آئین کا احترام کریں۔ ان مطالبات میں طالبان کی جانب سے خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے وعدے بھی شامل ہیں۔

رپورٹ میں افغان سرکاری عہدیداروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان مذاکرات میں پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم حقانی نیٹ ورک کو کوئی کردار نہیں دیا گیا، جسے امریکی حکومت خاص طور پر بے رحم اور ناقابلِ اعتماد تصور کرتی ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید