1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان دستوں کا پيچھے ہٹنا، حکمت عملی يا خفيہ ڈيل؟

عاصم سليم6 مارچ 2016

حاليہ دنوں ميں کئی جنوبی افغان اضلاع سے سکيورٹی دستوں کو واپس بلايا جا رہا ہے۔ کابل حکومت کا دعویٰ ہے کہ يہ ايک باقاعدہ حکمت عملی کے تحت کيا جا رہا ہے جبکہ سياسی مبصرين کا کہنا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1I83w
تصویر: Reuters/A. Malik

ريکارڈ تعداد ميں ہلاکتوں، فوجيوں کی جانب سے ’دشمن‘ سے جا ملنے اور اہلکاروں کی کم تعداد کے سبب وسطی صوبے ارُوزگان کے چند مقامات پر افغان دستوں نے اپنی پوزيشنيں چھوڑ دی ہيں۔ پڑوسی صوبے ہلمند کے اضلاع موسیٰ قلعہ اور نوزاد سے بھی افغان دستے پيچھے ہٹ چکے ہيں۔ سکيورٹی دستوں کی جانب سے جنوبی اضلاع سے اِس طرح رضاکارانہ طور پر بغير لڑائی کے چلے جانا اہلکاروں کو درپيش مسائل کی عکاسی کرتا ہے۔

موسیٰ قلعے سے تعلق رکھنے والے ايک قبائلی رہنما محمد اسماعيل کا کہنا ہے، ’’مشکل سے حاصل کردہ علاقوں سے دستوں کو واپس بلا لينا بنيادی طور پر اِس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ نے يہ تسليم کر ليا ہے کہ طالبان جيت چکے ہيں۔‘‘ رہنما کے بقول ’يہ اُن تمام لوگوں کے ساتھ نا انصافی ہو گی، جنہوں نے اِس علاقے کے دفاع کے ليے پچھلے پندرہ برسوں کے دوران اپنی جانيں دی ہيں۔‘

افغان دستوں کے اِس انخلاء کے سبب ايسے خدشات سامنے آ رہے ہيں کہ ہلمند کا صوبہ حکومت کے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ افغانستان ميں افيون کی کاشت کے مرکز سمجھے جانے والے اِس علاقے کے چودہ ميں سے دس اضلاع پر افغان طالبان قابض ہيں۔ اِس صورتحال ميں ايسی افواہيں بھی سامنے آ رہی ہيں کہ شايد يہ کابل حکومت کے طالبان کے ساتھ کسی طرح کے خفيہ معاہدوں کے تحت ہو رہا ہے۔

اِس کے برعکس افغان کمانڈرز کا طالبان کے ساتھ کسی بھی ڈيل کی افواہ کو مسترد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ دستوں کو چند مقامات سے واپس بلانا ایک باقاعدہ حکمت عملی کے تحت کيا جا رہا ہے، جس کا مقصد موجودہ دستوں کو ايسے علاقوں سے دور رکھنا ہے، جن کا دفاع قدرے مشکل ہے۔ افغان وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزيری نے نيوز ايجنسی اے ايف پی سے بات چيت کرتے ہوئے کہا، ’’جو لوگ اِس منصوبے پر تنقيد کر رہے ہيں، وہ جنگ کے طور طريقوں سے آگاہ نہيں۔‘‘ اُن کے بقول ہلمند سے دستے ہٹائے نہيں جا رہے بلکہ اُن کی زيادہ بہتر انداز ميں تقسيم و تعيناتی کی جا رہی ہے تاکہ دشمن کے خلاف بہتر کارروائی کی جا سکے۔

’وُوڈرو ولسن انٹرنيشنل سينٹر فار اسکالرز‘ سے وابستہ افغان امور کے ماہر مائيکل کوگلمين
’وُوڈرو ولسن انٹرنيشنل سينٹر فار اسکالرز‘ سے وابستہ افغان امور کے ماہر مائيکل کوگلمينتصویر: C. David Owen Hawxhurst / WWICS

سياسی تجزيہ نگار البتہ افغان حکومت کے اِس دعوے کو مسترد کرتے ہيں۔ امريکی دارالحکومت واشنگٹن ميں قائم تھنک ٹينک ’وُوڈرو ولسن انٹرنيشنل سينٹر فار اسکالرز‘ سے وابستہ افغان امور کے ماہر مائيکل کوگلمين کے مطابق ’نئی حکمت عملی طالبان کے آگے ہتھيار ڈالنے کے برابر ہے کيونکہ بظاہر ايسا کوئی امکان نظر نہيں آتا کہ جن علاقوں سے سکيورٹی دستے واپس جا رہے ہيں، اُنہيں وہ مستقبل قريب ميں دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کريں گے۔‘ کوگلمين کے مطابق افغان دستے شديد دباؤ کا شکار ہيں اور وہ اُنہيں اس پوزيشن ميں نہيں ديکھتے کہ وہ اِن علاقوں پر دوبارہ قابض ہو سکيں گے۔

دوسری جانب مغربی دفاعی اتحاد نيٹو کی قيادت ايک عرصے سے يہ مطالبہ کرتی آئی ہے کہ فوجيوں کو مخصوص مقامات سے پيچھے ہٹايا جائے۔ امريکی فوج کے ترجمان بريگيڈيئر جنرل ولسن شوفنر نے جنوری ميں کہا تھا، ’’افغان سکيورٹی دستوں نے بہت زيادہ چيک پوسٹيں قائم کر رکھی ہيں اور بہت زيادہ فوجی اِن چيک پوسٹوں پر تعينات ہيں۔‘‘ اُنہوں نے مزيد وضاحت کی تھی، ’’فوج ميں ايک پرانی کہاوت ہے، اگر آپ سب جگہ دفاع کرنا چاہيں، تو آپ کہيں بھی دفاع نہيں کر پاتے۔ غالباً افغانستان کے معاملے ميں يہ سچ ہے۔‘‘

گزشتہ برس افغانستان ميں تقريباً گيارہ ہزار سويلين زخمی يا ہلاک ہوئے، جو ايک نيا ريکارڈ ہے۔ سن 2015 ميں اموات کی تعداد 3,545 رہی۔