1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان خواتین کابل کا صدارتی محل تعمیر کریں گی

صائمہ حیدر
27 اکتوبر 2016

کابل کے قریب واقع  ’دار الامن ‘ نامی افغانستان کا وہ تاریخی صدارتی محل جسے مردوں نے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا تھا، اب افغان خواتین کے ہاتھوں از سرِ نو تعمیر ہونے جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2RnWY
Afghanistan Darul-Aman-Palast in Kabul
افغان خانہ جنگی میں تباہ ہونے والی اِس عالی شان عمارت کے از سر نو تعمیری منصوبے کی بنیاد افغان صدر اشرف غنی نے رواں برس مئی میں رکھی تھیتصویر: Reuters/M. Ismail
Afghanistan Darul-Aman-Palast in Kabul
افغان خانہ جنگی میں تباہ ہونے والی اِس عالی شان عمارت کے از سر نو تعمیری منصوبے کی بنیاد افغان صدر اشرف غنی نے رواں برس مئی میں رکھی تھیتصویر: Reuters/M. Ismail

کابل کا تاریخی’’دار الامن‘‘ صدارتی محل  افغانستان میں کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کی یاد گار دکھائی دیتا ہے۔ افغان خانہ جنگی کے دوران بے تحاشا بمباری اور گولہ بارود کی تپش نے اِس عمارت کے جاہ و جلال کو مسخ کر دیا تھا۔ تاہم اب افغان حکومت نے اس محل کی از سرِ نو تعمیر کا منصوبہ بنایا ہے۔

 دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس منصوبے کے تحت محل کی تعمیرِ نو میں حصہ لینے والی افرادی قوت کا ایک چوتھائی حصہ خواتین ہیں۔ افغانستان جیسے قدامت پسند ملک میں جہاں خواتین کے لیے کام کرنے کے مواقع انتہائی محدود ہیں، یہ خبر خاصی خوش آئند معلوم ہوتی ہے۔

 زہرہ جعفری جو ایک الیکٹرانک انجنیر ہیں، نے خبر رساں ادارے تھومس روئٹرز فاؤنڈیشن سے فون پر بات چیت کے دوران بتایا، ’’اِس اہم منصوبے میں ہماری شرکت اِس سوچ کو رد کرتی ہے کہ خواتین تعمیراتی منصوبوں میں حصہ لینے کے لیے بہت کمزور ہیں۔‘‘

زہرا جعفری کا مزید کہنا تھا، ’’یہ ہم میں سے ہر ایک کے لیے بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ہم بہترین کے لیے تگ دو کرتے ہیں اور ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ خواتین بھی قومی منصوبوں کو پایہء تکمیل تک پہنچا سکتی ہیں۔‘‘

Afghanistan Darul-Aman-Palast in Kabul
افغانستان کی خانہ جنگی شروع ہوئی تو گولہ باری سے اس محل کو شدید نقصان پہنچاتصویر: Reuters/M. Ismail

افغان خانہ جنگی میں تباہ ہونے والی اِس عالی شان عمارت کے از سر نو تعمیری منصوبے کی بنیاد افغان صدر اشرف غنی نے رواں برس مئی میں رکھی تھی۔ سن انیس سو بیس کی دہائی میں افغانستان کے سابق بادشاہ امان اللہ خان کی تعمیر کردہ یورپی طرزِ تعمیر کی حامل اِس عمارت میں بیس ‌کارکن خواتین اپنے ساٹھ مرد ساتھی کارکنان کے ساتھ سر پر تعمیر کے کام کے لیے مختص ہیٹ پہنے کھڑی تھیں۔

 محل کی تعمیرِ نو کے نگران سید ضیاء حسینی نے فون پر بتایا،’’ہم نے انجنیرز کو صرف اُن کی مہارت اور تجربے کی بنیاد پر منتخب کیا ہے۔ انتخاب کا عمل بالکل شفاف تھا اور خواتین انجنیرز کو بھی اُسی طریقہ کار سے گزرنا پڑا جس سے مرد انجنیرگزرے‘‘ روایت پسند افغان معاشرے میں خواتین کا گھروں سے باہر نکل کر تعمیراتی کاموں میں حصہ لینا غیر معمولی بات ہے۔ افغانستان میں خواتین زیادہ تر نرسوں، اساتذہ ،ڈاکٹروں یا دائیوں کا پیشہ اختیار کرتی ہیں۔