1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان جنگ کے آٹھ سال اورجرمن فوجی مشن

7 اکتوبر 2009

جرمن فوجی دنیا کے کئی ملکوں اور بحران زدہ خطّوں میں تعینات ہیں- جرمنی کے فوجی انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورسISAF کے ساتھ ساتھ KFOR اور EUFOR جیسی اتحادی تنظیموں کا بھی اہم حصّہ ہیں-

https://p.dw.com/p/K1VW
تصویر: picture-alliance/ dpa

افغانستان میں چار ہزارسے زائد جرمن فوجی اہلکار موجود ہیں- بین الاقوامی مشنز کے لئے جرمن فوج کا ہیڈکوارٹر دارالحکومت برلن کے نواحی شہر پوٹس ڈام میں قائم ہے-

افغانستان کی ابتر صورتحال کا اعتراف وہاں موجود امریکہ اور نیٹو اتحاد کے کمانڈر جنرل میک کرسٹل برملا طور پر کر چکے ہیں- میک کرسٹل یہ کہہ چکے ہیں کہ نئی افغان اسٹریٹیجی کے بغیر نیٹو کو طالبان کے خلاف جاری جنگ میں شکست کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے- امریکی فوجی کمانڈر نے نئی حکمت عملی کی وکالت کرتے ہوئے کہا تھا: ’’ایک ایسی اسٹریٹیجی جو افغانستان میں استحکام نہیں لا سکتی وہ یقیناً ایک دور اندیش حکمت عملی نہیں ہے۔‘‘ میک کرسٹل کے اس بیان کے بعد افغانستان کے حوالے سے ایک نئی بحث چھڑ گئی-

Anschlag auf ISAF-Tanklastwagen
افغانستان میں بم دھماکے روز کا معمول بن گئے ہیںتصویر: picture-alliance/ dpa

امریکی صدر باراک اوباما نے چھہ اکتوبر کو اراکین کانگریس کو واضح طور پر یہ بتایا کہ افغان جنگ سے متعلق ان کی نئی حکمت عملی سے شاید تمام امریکی باشندے اور کانگریس اراکین خوش نہیں ہوں گے- امریکی ریپبلکنز یہ چاہتے ہیں کہ صدر اوباما مزید فوجی افغانستان بھیجنے کے حوالے سے کمانڈر میک کرسٹل کی درخواست پر سنجیدگی سے غور کریں-

جرمنی میں بھی افغان فوجی مشن سے متعلق بحث جاری ہے- بعض سیاسی حلقے مزید فوجی بھیجنے کے حق میں ہیں جبکہ دیگر افغانستان میں پہلے سے موجود جرمن فوجیوں کو بھی واپس وطن بلانا چاہتے ہیں- اگرچہ افغانستان فوج بھیجنے یا وہاں سے واپس بلانے کا فیصلہ جرمن پارلیمنٹ میں کیا جاتا ہے تاہم اس سلسلے میں جرمن فوج کے ساتھ مشاورت ضرور کی جاتی ہے- افغان مشن کے حوالے سے جرمن فوج کا موقف بھی اپنی جگہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے-

بنڈس ویہر میں فوج کے ترجمان برائے پریس اور نشریات کلاؤس ڈبلیو بیوکلائن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ جرمن فوجی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں- ان کو ایسی تربیت حاصل ہے، جس سے وہ دنیا کے کسی بھی بحران زدہ خطّے میں تمام ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرسکتے ہیں-

Bundeskanzlerin Merkel in Afghanistan
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جرمن فوجیوں سے ملاقاتتصویر: AP

ڈوئچے ویلے اردو سروس کے ساتھ خصوصی بات چیت میں کلاؤس بیوکلائن نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ جرمن فوج کے لئے افغان مشن اب تک کا سب سے بڑا چیلنج ثابت ہوا ہے- ’’ ISAF اور نیٹو میں شامل تمام پارٹنرز اور جرمن فوج کے لئے افغان مشن نہ صرف اہمیت کا حامل ہے بلکہ یہ سب سے زیادہ خطرناک بھی ہے- ہمارے فوجی افغان مشن کے خطرات سے باخبر ہیں- انہیں افغانستان کے سنگین حالات کا بخوبی علم ہے- لیکن ہمیں یقین ہے کہ جرمن فوجی مشن اپنا ہدف پورا کرے گا- حالات راتوں رات نہیں بدلیں گے مگر بدلیں گے ضرور-‘‘

فوجی ترجمان نے بتایا کہ افغانستان میں حالات بدلنے میں وقت کی ضرورت ہے- کلاوز بیوکلائن نے اس افغان کہاوت کا حوالہ دیا-’’یورپ نے کلاک ایجاد کیا لیکن افغانیوں نے وقت-‘‘

اس ماہ کے شروع میں یعنی چار اکتوبر کو افغانستان میں تعینات مغربی دفاعی اتحاد نیٹو فوجیوں پر رواں سال کے اب تک کے خطرناک ترین حملے میں آٹھ امریکی فوجی ہلاک ہوئے- ان ہلاکتوں کے ساتھ ہی افغانستان میں سن 2001ء سے اب تک طالبان کے حملوں میں ہلاک ہونے والے غیر ملکی فوجیوں کی مجموعی تعداد 1442 سے تجاوز کرگئی۔ ہلاک ہونے والے غیر ملکی فوجیوں میں تیس سے زائد جرمن فوجی بھی شامل ہیں-

جرمن فوجیوں کی ہلاکت کے حوالے سے جرمن فوجی ترجمان کلاؤس بیوکلائن نے ہمیں بتایا کہ ہلاک ہونے والے فوجیوں میں وہ اہلکار بھی شامل ہیں، جن کی موت قدرتی طور پر واقع ہوئی یا جنہوں نے ذاتی وجوہات کی بناء پر خود کشی کر لی- بیوکلائن نے اس بات سے انکار کیا کہ ان واقعات سے فوجیوں کے حوصلے یا مورال میں کمی واقع ہوتی ہے-

گزشتہ برس اگست میں طالبان کے ایک خطرناک حملے میں دس فرانسیسی فوجی ہلاک ہوگئے تھے جبکہ پچھلے ہی مہینے افغان دارالحکومت کابل میں ایک خودکش بم حملے میں چھ اطالوی فوجی ہلاک ہوئےتھے۔

Deutschland Flash-Galerie Woche 39 Afghanistan Bundeswehr
تصویر: AP

جنوبی افغان صوبوں ہلمند اور قندھار میں طالبان کا خاصا اثر ہے تاہم گزشتہ ایک دو برسوں میں طالبان کی سرگرمیاں ملک کے مشرقی حصّے میں بھی تیز ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ لندن میں قائم بین الاقوامی کونسل برائے سلامتی و ترقی یا ’انٹرنیشنل کونسل آن سیکیورٹی اینڈ ڈویلپمنٹ‘ نامی تھنک ٹینک کے مطابق اس وقت طالبان عسکریت پسندوں کا اثر افغانستان کے اسّی فی صد حصّے پر ہے-

iCasualties.org نامی ویب سائٹ کے مطابق افغانستان میں گزشتہ نو برسوں کے دوران مرنے والے غیر ملکی فوجیوں میں سب سے زیادہ تعداد امریکیوں کی ہیں۔ افغانستان میں اب تک 850 سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ برطانیہ 219 ہلاکتوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر جبکہ تیسرے نمبر پر کینیڈا ہے جس کے 130 سے زائد فوجی ہلاک ہوگئے ہیں۔

اس ویب سائٹ کے مطابق 35 فرانسیسی اور 36 جرمن فوجی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ جن دیگر ملکوں کے فوجی افغانستان میں مارے گئے ہیں ان میں ہالینڈ، آسٹریلیا، ڈنمارک، اٹلی، چیک جمہوریہ، بیلجیم، ناروے، پولینڈ، رومانیہ، ہنگری، سویڈن، اسپین، فن لینڈ، لیٹویا، لیتھوینیا، ایسٹونیا، جنوبی کوریا اور ترکی بھی شامل ہیں۔

تحریر: گوہر نذیر گیلانی، برلن

ادارت: امجد علی